Siraj-ul-Bayan - Az-Zukhruf : 13
لِتَسْتَوٗا عَلٰى ظُهُوْرِهٖ ثُمَّ تَذْكُرُوْا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ اِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْهِ وَ تَقُوْلُوْا سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَ مَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِیْنَۙ
لِتَسْتَوٗا : تاکہ تم چڑھ بیٹھو عَلٰي ظُهُوْرِهٖ : ان کی پشتوں پر ثُمَّ تَذْكُرُوْا : پھر تم یاد کرو نِعْمَةَ رَبِّكُمْ : اپنے رب کی نعمت کو اِذَا اسْتَوَيْتُمْ : جب سوار ہو تم عَلَيْهِ : اس پر وَتَقُوْلُوْا : اور تم کہو سُبْحٰنَ الَّذِيْ : پاک ہے وہ ذات سَخَّرَ لَنَا : جس نے مسخر کیا ہمارے لیے ھٰذَا : اس کو وَمَا كُنَّا : اور نہ تھے ہم لَهٗ : اس کے لیے مُقْرِنِيْنَ : قابو میں لانے والے
تاکہ تم ان کی پشت پر چڑھ بیٹھو ، پھر جب ان پر بیٹھ چکو ، تو اپنے رب کی نعمت (ف 1) یاد کرو اور کہو کہ وہ پاک ہے ۔ جس نے اسے ہمارے قابو میں کیا اور (حالانکہ) ہم اس پر قابو پانے والے نہ تھے
ایک چھوٹا سا مگر عظیم القدر سبق 1: اسلام میں ایک خصوصیت یہ ہے کہ اپنے ماننے والوں میں ایسی روح پھونکتا ہے ۔ کہ وہ کسی وقت بھی اللہ تعالیٰ کو فراموش نہ کریں ۔ ہر منزل اور ہر مقام میں اللہ کو یاد کریں ۔ اس کا نام لیں ۔ اور اس کے ذکر سے زبان کو حلاوت بخشیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہو یا گھوڑے پر بیٹھو ۔ تو اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو ۔ اور زبان سے ان کلمات کا اظہار کرو ۔ سبحان الذی سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقربین وانا ربنا منقلبون ۔ یعنی وہ خدا شرک کی آلودگی سے پاک ہے ۔ جس نے ان سرکش قوموں کو ہمارے مسخر کردیا ہے ۔ حالانکہ ہم ان کو اپنے قابو میں نہیں کرسکتے تھے ۔ اور بالآخر ہم سب لوگوں کو اس کے حضور میں جانا ہے ۔ یہ چھوٹا ساسبق کتنا عظیم الشان سبق ہے ۔ اس سے ایک طرف تو انسان میں احسان منت پیدا ہوتا ہے ۔ کہ ہمارا خدا ہمارے لئے کس درجہ شفیق ہے ۔ اس نے ہمارے آرام اور ہماری سہولتوں کے لئے طرح طرح کی سواریاں بنائی ہیں ۔ اور دوسری طرف تفاخر و غرور کا جذبہ مٹ جاتا ہے ۔ جب کہ وہ عین مسرت کے وقت یہ کہتا ہے کہ بالآخر ہمیں اس کے پاس جانا ہے اس لئے ضروری ہے ۔ کہ تیاری کریں ۔ اور اپنے میں وہ قابلیت پیدا کریں ۔ جو ہم کو اس کے سامنے پیش ہونے کے لائق بنادے ۔
Top