Siraj-ul-Bayan - Al-Qalam : 46
اَمْ تَسْئَلُهُمْ اَجْرًا فَهُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَۚ
اَمْ تَسْئَلُهُمْ : یا تم سوال کرتے ہو ان سے اَجْرًا : کسی اجر کا فَهُمْ : تو وہ مِّنْ مَّغْرَمٍ : تاوان سے مُّثْقَلُوْنَ : دبے جاتے ہوں
کیا تو ان سے کچھ مزدوری (ف 2) مانگتا ہے کہ وہ چٹی سے بوجھل ہورہے ہیں
2: امرتسئلھم کا تعلق آیات ماسبق سے ہے ۔ مقصود یہ دریافت کرتا ہے کہ یہ لوگ ایمان کی نعمت سے آخر محروم کیوں ہیں ۔ آخر جب یہ بات طے ہے ۔ کہ اسلام انسانیت کے لئے آخری پیغام ہے ۔ اس میں تمام روحانی اور مادی مشکلات کا حل ہے ۔ اس میں نجات وسعادت ہے ۔ فلاں دارین ہے ۔ بالیدگی اور ارتقاء ہے ۔ اور جب یہ مسلم ہے ۔ کہ اس نے محض اپنی تعلیمات کی صداقت کی وجہ سے اتنی بڑی کامیابی حاصل کی ہے ۔ کہ انسانوں کو پشتی اور فیض سے اٹھایا ہے ۔ اور انتہائی بلندیوں تک اچھال دیا ہے ۔ عربوں کو جو جرائم پیش اقوام میں سے تھے تعلیم روحانیت واخلاق کا ناپیدار بنادیا ہے ۔ اور دیکھتے دیکھتے علم وصنعت کے ایک عالم نو کی بنیاد رکھی ہے ۔ کہ دنیائیکفر کی آنکھیں اس کی روشنی اور چمک سے غیرہورہی ہیں ۔ ان حالات میں سوال یہ ہے کہ یہ لوگ کیوں اس صداقت کو قبول نہیں کرتے ۔ اور کیوں خداونددوجہان کے سامنے نہیں جھکتے اور ان عظمتوں اور بلندیوں پر فائز نہیں ہوتے ۔ کیا ان سے مذہب کی اشاعت کے نام پر کچھ تاوان وصول کیا جاتا ہے جس کے بوجھ تلے وہ دبے ہوئے ہیں یا یہ بات ہے ۔ کہ ان کو علم غیب سے بہروافر ملا ہے ۔ جو ان کے پاس لکھا رکھا ہے ۔ بہرحال کچھ تو بتانا چاہیے ۔ کہ تامل و انکار کی وجودہ کیا ہیں ۔ حل لغات :۔ مغوم ۔ نادان متقون ۔ گراں باد الحوت ۔ مچھلی مکتوم ۔ غم غصہ میں مبتلا ، غم اور اندوہ سے معمور ۔
Top