Tadabbur-e-Quran - Yunus : 16
قُلْ لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا تَلَوْتُهٗ عَلَیْكُمْ وَ لَاۤ اَدْرٰىكُمْ بِهٖ١ۖ٘ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
قُلْ : آپ کہہ دیں لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ : اگر چاہتا اللہ مَا تَلَوْتُهٗ : نہ پڑھتا میں اسے عَلَيْكُمْ : تم پر وَلَآ اَدْرٰىكُمْ : اور نہ خبر دیتا تمہیں بِهٖ : اس کی فَقَدْ لَبِثْتُ : تحقیق میں رہ چکا ہوں فِيْكُمْ : تم میں عُمُرًا : ایک عمر مِّنْ قَبْلِهٖ : اس سے پہلے اَفَلَا : سو کیا نہ تَعْقِلُوْنَ : عقل سے کام لیتے تم
کہہ دو اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو نہ میں اس کو تمہیں سناتا اور نہ وہ اس سے تمہیں باخبر کرتا۔ میں اس سے پہلے تم میں ایک عمر بسر کرچکا ہوں تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے
16۔ 17۔ قُلْ لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْرَاكُمْ بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلا تَعْقِلُونَ (16) فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ إِنَّهُ لا يُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ ادراکم، دری یدری، سے باب افعال اور غائب کا صیغہ ہے۔ فاعل اس کا اللہ ہے۔ بعض لوگوں نے اس کو " ماتلوتہ " سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس کا ترجمہ متکلم کا کیا ہے لیکن یہ عربیت کے بالکل خلاف ہے۔ مسکت جواب : اب یہ پیغمبر ﷺ کی زبان سے کفار کے مطالبے کے پہلے ٹکڑے کا جواب دلوایا ہے۔ یعنی اس بات کا کہ اس قرآن کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ۔ فرمایا کہ تم گمان کرتے ہو کہ میں نے یہ قرآن تمہارے سامنے اپنے شوق سے پیش کیا ہے اور اس رنگ میں میں نے تم پر اپنی سیادت اور نبوت جمانی چاہی ہے۔ تمہارا یہ خیال بالکل غلط ہے۔ میں نے اس بارگراں کا نہ کبھی ارمان کیا اور نہ اپنے شوق سے اس کو اٹھایا ہے۔ میں اس ذمہ داری کی گراں باریوں سے سب سے زیادہ بھاگنے والا رہا ہوں۔ لیکن مشیت الٰہی یہی ہوئی کہ میں یہ بوجھ اٹھاؤں۔ اگر خدا کی مشیت نہ ہوتی تو نہ میں اس چیز کو تمہارے سامنے پیش کرتا اور نہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے تم کو اعلام و انذار کرتا۔ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلا تَعْقِلُونَ۔ پیغمبر کی تاریخ سے استدلال : یہ اوپر والی بات کی ایسی سادہ اور مسکت دلیل ہے کہ کوئی ایماندار آدمی اس کو جھٹلا نہیں سکتا۔ ارشاد ہوا کہ میں تم میں کوئی نو وارد آدمی نہیں ہوں جس کے ماضی و حاضر سے تم بیخبر ہو۔ میں تمہارے اندر زندگی کے چالیس سال گزار چکا ہوں۔ اس طویل مدت میں کب تم نے میری طرف سے کسی جھوٹ یا فریب کا تجربہ کیا ہے۔ کب تم نے میرے اندر سیادت و امارت کی بو محسوس کی ہے، کب تم نے پایا ہے کہ میں اونچے اونچے خواب دیکھتا ہوں اور اپنی بڑائی کی دھونس جمانے کا شوق رکھتا ہوں ؟ آدمی کا مزاج راتوں رات نہیں بنتا اور نہ کردار ایسی چیز ہے جو اتنی طویل باہمی معاشرت کے باوجود نگاہوں سے مخفی رہے جس شخص نے خلق میں سے کسی سے جھوٹ نہ بولا ہو آخر وہ خالق پر اتنا بڑا جھوٹ باندھنے کی جسارت کیسے کرسکتا ہے ؟ آج تک تم مجھے صادق اور امین سمجھتے رہے تو اب میں راتوں رات برخود غلط، خودنما، لپاٹیا اور مفتری کیسے بن گیا ؟ خدا کے بندو عقل سے کام لو۔ انصاف سے غور کرو اور ضد وعناد میں اندھے نہ بن جاؤ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرات انبیاء کی زندگی شرف رسالت سے ممتاز ہونے سے پہلے بھی ایسی بےداگ ہوتی ہے کہ ان کے مخالفین اس پر انگلی رکھنے کی کوئی گنجائش نہیں پاتے اور یہ چیز ان کے دعوے کی صداقت کی ایک بہت بڑی دلیل ہوتی ہے۔ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي۔۔ الایہ۔ یعنی اگر میں خدا پر افترا کر رہا ہوں اور جھوٹا دعوائے نبوت لے کر اٹھا ہوں تو مجھ سے بڑا کوئی ظالم نہیں اور اگر میں سچا ہوں اور تم اللہ کی آیات کو جھٹلا رہے ہو تو تم سے بڑا کوئی ظالم نہیں۔ اب مستقبل فیصلہ کرے گا کہ ظالم تم ہو یا میں۔ یہ یاد رکھو کہ جو مجرم ہوں گے وہ فلاح نہیں پائیں گے۔ یہاں وہ بات یاد رکھنے کی ہے جس کی طرف ہم پیچھے اشارہ کر آئے ہیں کہ اللہ کے رسولوں اور ان کے مخالفین کے مابین حق و باطل کی جو کشمکش برپا ہوتی ہے وہ لازماً حق کے غلبہ پر منتہی ہوتی ہے اس لیے کہ رسول خدا کی عدالت ہوتا ہے اور اس کے لیے بفحوائے، لاغلبن انا و رسلی، آخرت سے پہلے اس دنیا میں بھی غلبہ لازمی ہے۔
Top