Tadabbur-e-Quran - Yunus : 40
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یُّؤْمِنُ بِهٖ وَ مِنْهُمْ مَّنْ لَّا یُؤْمِنُ بِهٖ١ؕ وَ رَبُّكَ اَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِیْنَ۠   ۧ
وَمِنْھُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو (بعض) يُّؤْمِنُ : ایمان لائیں گے بِهٖ : اس پر وَمِنْھُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو (بعض) لَّا يُؤْمِنُ : نہیں ایمان لائیں گے بِهٖ : اس پر وَرَبُّكَ : تیرا رب اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِالْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والوں کو
اور ان میں ایسے بھی ہیں جو اس پر ایمان لاتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو ایمان نہیں لاتے اور تیرا رب مفسدوں سے خوب واقف ہے
40۔۔ 44: وَمِنْھُمْ مَّنْ يُّؤْمِنُ بِهٖ وَمِنْھُمْ مَّنْ لَّا يُؤْمِنُ بِهٖ ۭ وَرَبُّكَ اَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِيْنَ۔ وَاِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ لِّيْ عَمَلِيْ وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ ۚ اَنْتُمْ بَرِيْۗـــــُٔوْنَ مِمَّآ اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ۔ وَمِنْھُمْ مَّنْ يَّسْتَمِعُوْنَ اِلَيْكَ ۭاَفَاَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ كَانُوْا لَا يَعْقِلُوْنَ۔ وَمِنْھُمْ مَّنْ يَّنْظُرُ اِلَيْكَ ۭ اَفَاَنْتَ تَهْدِي الْعُمْيَ وَلَوْ كَانُوْا لَا يُبْصِرُوْنَ۔ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْـــًٔـا وَّلٰكِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَھُمْ يَظْلِمُوْنَ۔ وَمِنْھُمْ مَّنْ يُّؤْمِنُ بِهٖ۔۔۔ الایۃ، مکذبین کو مہلت دینے کی وجہ : یہ آنحضرت ﷺ کے لیے تسلی بھی ہے اور مکذبین قرآن کے لیے دھمکی بھی۔ مطلب یہ ہے کہ جب ان کے اندر سے ایسے لوگ نکل رہے ہیں جو قرآن پر ایمان لا رہے ہیں تو معلوم ہوا کہ ان کے اندر کچھ ذی صلاحیت بھی ہیں۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ان کو اس حد تک بلو لیا جائے کہ ان کے اندر جتنا مکھن ہے وہ نکل آئے، صرف چھاچھ بچ رہے۔ اسی حکمت کے تحت ان کے مطالبہ عذاب کے باوجود ان کو مہلت دی جا رہی ہے کہ جو مفسدین ہیں وہ چھٹ کر بالکل سامنے آجائیں۔ تیرا رب ان سے خوب واقف ہے، ان کو وہ ان کی شرارتوں کا مزہ چکھائے گا۔ وَاِنْ كَذَّبُوْكَ۔۔۔ الایہ : مکذبین سے اعلان براءت : یہ ان مکذبین سے آنحضرت ﷺ کو اعلان براءت کی ہدایت ہے کہ جو کسی طرح کوئی بات سننے سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے تھے۔ فرمایا کہ ان سے کہہ دو کہ میں اپنے عمل کا ذمہ دار ہوں، تم اپنے عمل کے ذمہ دار ہو، تم میرے عمل کی ذمہ داری سے بری ہو اور میں تمہاری اعمال کی ذمہ داریوں سے بری ہوں، رسول کی طرف سے یہ اعلان براءت، ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں کہ اس کے جھٹلانے والوں کے لیے عذاب کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ رسول جب تک اپنی قوم کے اندر رہتا ہے وہ اس کے لیے امان اور سپر ہوتا ہے، جب وہ ان سے اعلان براءت کردیتا ہے تو یہ امان جو اس کی بدولت قوم کو حاصل ہوتی ہے اٹھ جاتی ہے اور جب امان اٹھ گئی تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے بعد عذاب ہر وقت متوقع ہے۔ اسی وجہ سے رسول کی زبان سے براءت کا کلمہ کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ اس کی قوم کی زندگی میں یہی وقت سب سے زیادہ نازک وقت ہوتا ہے۔ وَمِنْھُمْ مَّنْ يَّسْتَمِعُوْنَ۔۔۔ الایۃ۔ آنحضرت ﷺ کے لیے تسکین و تسلی : یہ بھی آیت 40 کی طرح آنحضرت ﷺ کے لیے تسکین و تسلی ہے کہ تمہارے اطمینان کے لیے یہ چیز کا فی ہونی چاہیے کہ ان کے اندر جو سننے سمجھنے اور فہم و بصیرت رکھنے والے لوگ ہیں وہ تمہاری بات پر کان دھرتے اور تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو اپنی شامت اعمال سے گونگے بہرے اور اندھے بن چکے ہیں وہ تو سننے سمجھنے سے رہے۔ اگر تمہارے دل کے اندر یہ ارمان ہے کہ یہ بھی تمہاری باتیں سنیں اور مانیں تو یہ ہونے سے رہا۔ ایمان وہدایت کے باب میں اللہ کی جو سنت ہے وہ تبدیل نہیں ہوسکتی۔ اللہ تعالیٰ ہدایت انہی کو بخشتا ہے جو اس کی عطا کی ہوئی صلاحیتوں کو زندہ رکھتے اور ان سے کام لیتے ہیں۔ وَمِنْھُمْ مَّنْ يَّنْظُرُ اِلَيْكَ۔۔ الایۃ۔ یہ بعینہ اوپر والی آیت کا مضمون ذرا مختلف اسلوب میں بیان ہوا ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ۔۔۔ الایۃ۔ ایک استدارک : اوپر والی بات پر ایک قسم کا استدراک ہے۔ بادی النظر میں یہ بات کھٹکتی ہے کہ آخر بہت سے لوگوں کا حال یہ کیوں ہوجاتا ہے کہ وہ ایسے اندھے بہرے ہوجاتے ہیں کہ بالآخر وہ خدا کے ابدی عذاب کے مستحق ٹھہرتے ہیں فرمایا کہ یہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ اللہ نے ان پر کوئی ظلم کیا ہے، اللہ ذرا بھی اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم ڈھاتے ہیں۔ اللہ نے انسان کو بہترین صلاحیتوں سے مسلح کیا ہے۔ اگر وہ ان سے کام لے تو نبیوں اور رسولوں کی بات اس کو اپنے دل کی آواز معلوم ہوگی لیکن لوگ اپنی خواہشات کی پیروی میں اندھے بہرے بن جاتے ہیں جس کے سبب سے ان کو ہر صدائے حق اجنبی معلوم ہونے لگتی ہے اور وہ اس کو قبول کرنے کی بجائے اس سے بدکنے لگتے ہیں۔
Top