Tadabbur-e-Quran - Yunus : 53
وَ یَسْتَنْۢبِئُوْنَكَ اَحَقٌّ هُوَ١ؔؕ قُلْ اِیْ وَ رَبِّیْۤ اِنَّهٗ لَحَقٌّ١ؔؕۚ وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ۠   ۧ
وَيَسْتَنْۢبِئُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں اَحَقٌّ : کیا سچ ہے ھُوَ : وہ قُلْ : آپ کہ دیں اِيْ : ہاں وَرَبِّيْٓ : میرے رب کی قسم اِنَّهٗ : بیشک وہ لَحَقٌّ : ضرور سچ وَمَآ : اور نہیں اَنْتُمْ : تم ہو بِمُعْجِزِيْنَ : عاجز کرنے والے
اور وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ یہ بات واقعی ہے ؟ کہہ دو کہ ہاں میرے رب کی قسم یہ شدنی ہے اور تم قابو سے باہر نہیں نکل سکو گے
53۔ 54:۔ وَيَسْتَنْۢبِـــُٔـوْنَكَ اَحَقٌّ ھُوَ ڼ قُلْ اِيْ وَرَبِّيْٓ اِنَّهٗ لَحَقٌّ ې وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ۔ وَلَوْ اَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِي الْاَرْضِ لَافْـــتَدَتْ بِهٖ ۭ وَاَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ ۚ وَقُضِيَ بَيْنَھُمْ بِالْقِسْطِ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ۔ وَيَسْتَنْۢبِـــُٔـوْنَكَ اَحَقٌّ ھُوَ۔ عذاب کا مذاق اڑانے والوں کو جواب : اوپر آیات 48 میں کفار کا سوال " متی ھذا لوعد " نقل ہوا ہے۔ یہ سوال بھی اسی نوعیت کا ہے۔ بس یہ فرق ہے کہ اس میں انکار و استہزا کا پہلو ذرا مخفی ہے۔ اس میں وہ کھل کر سامنے آگیا ہے۔ سوال کرنے والوں کے مزاج مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔ بعض ذرا رکھ رکھاؤ کے انداز میں اپنے دل کی بات کہتے ہیں۔ بعض منہ پھٹ ہوتے ہیں جو اپنی بات پھینک مارتے ہیں۔ اسی قسم کے لا ابالیوں کی زبان سے یہ سوال نقل ہوا ہے کہ یہ پیغمبر سے پوچھتے ہیں کہ یہ جو عذاب اور جز و سزا کی باتیں سنا رہے ہو یہ حقیقت ہے یا یوں ہی محض دھونس جمانے کے لیے ڈینگیں مار رہے ہو ؟ قُلْ اِيْ وَرَبِّيْٓ اِنَّهٗ لَحَقٌّ ې وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ۔ " ای " حرف جواب ہے۔ نعم کے معنی میں اور یہ صرف قسم سے پہلے آتا ہے۔ سوال کرنے والوں کی ذہنیت کو پیش نظر رکھ کر صرف سادہ جواب ہی پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ قس کے ساتھ جواب دیا کہ یہ چیز شدنی ہے اور ساتھ ہی وما انتم بمعجزین کے الفاظ سے ان کی رعونت پر بھی ضرب کاری لگا دی کہ جب یہ چیز ظاہر ہوگی تو تم میرے رب کی گرفت سے بچ کے نکل نہ سکو گے۔ وَلَوْ اَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ۔۔۔ الایۃ۔ یعنی آج تو بڑی رعونت سے تم اس کا مذاق اڑا رہے ہو۔ لیکن جب یہ چیز سامنے آئے گی تو ہر جان، جس نے اس دن سے غفلت برت کر اپنے اوپر ظلم ڈھایا ہوگا۔ اس کا حال یہ ہوگا کہ اگر زمین کی ساری دولت بھی اس کو ہاتھ آجائے اور اس کو فدیہ میں دے کر اس دن کی ہولناکیوں سے نجات پانا ممکن ہو تو وہ اس کو فدیہ میں دے کر اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرے گی۔ وَاَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ ، میں وہی حقیقت ظاہر کی گئی ہے جو سورة انعام آیت 31 میں بیان ہوئی ہے، حتی اذا جاءتہم الساعۃ بغتۃ قالوا یاحسرتنا علی افرطنا فیہا (یہاں تک کہ جب وہ گھڑی ان پر آدھمکے گی وہ کہیں گے ہائے افسوس اس کوتاہی پر جو اس معاملے میں ہم نے کی)۔ چونکہ ندامت اور افسوس کا منبع انسان کا باطن ہوتا ہے اس وجہ سے اس کے لیے لفظ " اسر " استعمال ہوا ہے جس طرح ابطن العداوۃ کا محاورہ عربی میں معروف ہے۔ مقصود یہی بتانا ہے کہ آج تو یہ مذاق اڑا رہے ہیں لیکن کل وہ اپنی اس نالائق پر نادم اور پشیمان ہوں گے۔ وقضی بینہم بالقسط وھم لا یظلمون۔ یعنی ان کے درمیان پورے انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا، جو کچھ انہوں نے کا یا ہوگا وہی ان کے سامنے آئے گا۔ ان کے اوپر کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ اس میں ایک اشارہ اس بات کی طرف بھی ہوگیا کہ انہوں نے اپنے مزعوم شرکاء اور شفعاء سے جو امیدیں باندھ رکھی ہیں وہ سب بےحقیقت ثابت ہوں گی۔ کوئی چیز خدا کے انصاف پر اثر انداز نہ ہوسکے گی۔
Top