Tadabbur-e-Quran - Yunus : 71
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ نُوْحٍ١ۘ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَیْكُمْ مَّقَامِیْ وَ تَذْكِیْرِیْ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَعَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْتُ فَاَجْمِعُوْۤا اَمْرَكُمْ وَ شُرَكَآءَكُمْ ثُمَّ لَا یَكُنْ اَمْرُكُمْ عَلَیْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوْۤا اِلَیَّ وَ لَا تُنْظِرُوْنِ
وَاتْلُ : اور پڑھو عَلَيْهِمْ : ان پر (انہیں) نَبَاَ : خبر نُوْحٍ : نوح اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِقَوْمِهٖ : اپنی قوم سے يٰقَوْمِ : اے میری قوم اِنْ كَانَ : اگر ہے كَبُرَ : گراں عَلَيْكُمْ : تم پر مَّقَامِيْ : میرا قیام وَتَذْكِيْرِيْ : اور میرا نصیحت بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیات کے ساتھ فَعَلَي اللّٰهِ : پس اللہ پر تَوَكَّلْتُ : میں نے بھرسہ کیا فَاَجْمِعُوْٓا : پس تم مقرر کرلو اَمْرَكُمْ : اپنا کام وَشُرَكَآءَكُمْ : اور تمہارے شریک ثُمَّ : پھر لَا يَكُنْ : نہ رہے اَمْرُكُمْ : تمہارا کام عَلَيْكُمْ : تم پر غُمَّةً : کوئی شبہ ثُمَّ : پھر اقْضُوْٓا : تم کر گزرو اِلَيَّ : میرے ساتھ وَلَا تُنْظِرُوْنِ : اور نہ مجھے مہلت دو
اور ان کو نوح کی سرگزشت پڑھ کر سناؤ جب کہ اس نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو، اگر تم پر تمہارے اندر میرا ٹکنا اور اللہ کی آیات کی یاد دہانی کرنا گراں ہوگیا ہے تو میں نے بس اللہ پر بھروسہ کیا۔ تم اپنی رائے مجتمع کرلو اور اپنے شرکاء کو بھی ملا لو پھر تمہارے فیصلہ میں کوئی تذبذب باقی نہ رہے اور میرے ساتھ جو کرنا چاہتے ہو کر گزرو اور مجھے مہلت نہ دو
آگے کا مضمون۔ آیات 71۔ 93:۔ آگے حضرت نوح اور حضرت موسیٰ کی سرگزشت کسی قدر تفصیل کے ساتھ اور درمیان کے رسولوں کی اجمالاً مذکور ہوئی ہے مقصود ان سرگزشتوں کے حوالہ سے انہی حقائق کو تاریخ کی روشنی میں واضح کرنا ہے جو اوپر عقل و فطرت کے دلائل سے مبرہن کیے گئے ہیں۔ ان میں پیغمبر اور آپ کے ساتھیوں کے لیے سرمایہ تسکین اور آپ کے معاندین و مخالفین کے لیے پورا پورا درس عبرت موجود ہے۔ فرق اگر ہے تو نام ومقام اور زمانے کا ہے۔ اصل داستان اس قدر باہمدگر مشابہ ہے کہ نام و مقام کے فرق کو نظر انداز کردیجیے تو سرے سے کوئی فرق ہی نہیں رہ جاتا۔ آیات کی تلاوت فرمائیے۔ وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ نُوْحٍ ۘ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖ يٰقَوْمِ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَّقَامِيْ وَتَذْكِيْرِيْ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ فَعَلَي اللّٰهِ تَوَكَّلْتُ فَاَجْمِعُوْٓا اَمْرَكُمْ وَشُرَكَاۗءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ اَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوْٓا اِلَيَّ وَلَا تُنْظِرُوْنِ۔ حضرت نوح کی سرگزشت سب سے عدیم سرگزشت سب سے قدیم سرگزشت ہے : پچھلی قوموں میں سے سب سے قدیم قوم، جس کی بربادی کی روایات عربوں میں مشہور تھیں، وہ نوح کی قوم تھی، اس وجہ سے قرآن میں جب تاریخی ترتیب سے قوموں کی سرگزشت بیان ہوتی ہے تو سب سے پہلے اسی قوم کا ذکر آتا ہے۔ اعراف آیات 60۔ 64 میں بھی اس کا ذکر گزر چکا ہے۔ وہاں ہم اس کے محل وقوع اور اس کے تخمینی زمانہ کی طرف اشارہ کرچکے ہیں۔ نبا کے لفظ پر ہم دوسرے مقام میں بحث کر کے بتا چکے ہیں کہ اس سے مراد کوئی اہم واقعہ ہوتا ہے۔ اس لفظ کے استعمال سے یہاں پتہ چلتا ہے کہ مقصود نوح اور قوم نوح کی زندگی کے کسی اہم وڑ اور کسی فیصلہ کن واقعہ کی سرگزشت سنانا ہے، مورخوں کی طرز کی مجرد داستان سرائی پیش نظر نہیں ہے۔ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَّقَامِيْ وَتَذْكِيْرِيْ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ۔ مقام سے مراد اپنی قوم کے اندر وہ طویل قیام ہے جو حضرت نوح کو حاصل ہوا۔ عنکبوت آیت 14 سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے اندر ایک مدت دراز تک تبلیغ و دعوت میں سرگرم رہے یہاں تک کہ ان کے معاندین و مخالفین ان کی دعوت سے، جیسا کہ ہود آیت 32 سے واضح ہورہا ہے، بالکل تنگ آگئے۔ اسی مرحلہ میں حضرت نوح نے یہ بات فرمائی ہے اور یہ درحقیقت تمہید ہے اس چیلنج کی جو آگے آ رہا ہے۔ حضرت نوح کا چیلنج : فَاَجْمِعُوْٓا اَمْرَكُمْ وَشُرَكَاۗءَكُمْ۔ امر سے مراد رائے اور فیصلہ ہے۔ یعنی تم میرے باب میں اجتماعی طور پر ایک قطعی فیصلہ کرلو اور اپنے ان معبودوں کو بھی اس فیصلہ میں شریک کرلو جن کو تم خدا کی خدائی میں شریک گردانتے ہو۔ ثُمَّ لَا يَكُنْ اَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً۔ غمہ، کسی ڈھانک لینے والی چیز کو کہتے ہیں۔ لیکن محاورہ کلام میں جب کہیں گے۔ ھوفی غمۃ، تو اس کے معنی ہوں گے، وہ حیرانی اور تردد میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایسا قطعی فیصلہ کرلو کہ اس میں کوئی تردد و تذبذب باقی نہ رہے۔ ثُمَّ اقْضُوْٓا اِلَيَّ وَلَا تُنْظِرُوْنِ۔ اقضوا، کے بعد، الی، اقدام پر دلیل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قطعی فیصلہ کر کے مجھ پر اقدام کرو اور پھر مجھے ذرا مہلت نہ دو۔ میرا بھروسہ اللہ پر ہے وہ میری حفاظت فرمائے گا۔
Top