Tadabbur-e-Quran - Yunus : 79
وَ قَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُوْنِیْ بِكُلِّ سٰحِرٍ عَلِیْمٍ
وَقَالَ : اور کہا فِرْعَوْنُ : فرعون ائْتُوْنِيْ : لے آؤ میرے پاس بِكُلِّ : ہر سٰحِرٍ : جادوگر عَلِيْمٍ : علم والا
اور فرعون نے حکم دیا کہ میرے پاس سارے ماہر جادوگروں کو حاضر کرو
79 تا 82: وَقَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُوْنِيْ بِكُلِّ سٰحِرٍ عَلِيْمٍ۔ فَلَمَّا جَاۗءَ السَّحَرَةُ قَالَ لَھُمْ مُّوْسٰٓى اَلْقُوْا مَآ اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ۔. فَلَمَّآ اَلْقَوْا قَالَ مُوْسٰى مَا جِئْتُمْ بِهِ ۙ السِّحْرُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَيُبْطِلُهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِيْنَ۔ وَيُحِقُّ اللّٰهُ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُوْنَ۔ حضرت موسیٰ اور جادوگروں کا مقابلہ : وَقَالَ فِرْعَوْنُ۔۔ الایۃ۔ فرعون اور اس کے درباریوں سے یہ حقیقت تو مخفی نہیں ہوسکتی تھی کہ نہ حضرت موسیٰ ساحر ہیں اور نہ جو کچھ وہ پیش کر رہے ہیں، وہ سحر ہے لیکن چونکہ ان کی بات مان لینے کی صورت میں اس کو اپنی اور اپنی مزعومہ خدائی کی موت نظر آتی تھی۔ اس وجہ سے اس کو مفر کی شکل یہی نظر آئی کہ ملک کے تمام ماہر جادوگروں کو بلا کر ان سے حضرت موسیٰ کا مقابلہ کرایا جائے کہ شاید اس طرح بات بن جائے۔ اگرچہ یہ ایک صریح حماقت تھی لیکن کسی حقیقت کو نہ ماننے کی خواہش ایک ایسی خواہش ہے جس کی خاطر انسان بہت سی حماقتیں کر گزرتا ہے۔ فَلَمَّا جَاۗءَ السَّحَرَةُ۔۔ الایۃ، ساحروں سے حضرت موسیٰ کا یہ فرمانا کہ " جو کچھ تم پیش کرنا چاہتے ہو وہ پیش کرو " اپنے مشن پر غایت درجہ اعتماد کی دلیل ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ کے وعدہ نصرت پر پورا بھروسہ تھا کہ خواہ جادوگر جتنا بڑا جادو بھی دکھائیں ان کے پاس اس کا توڑ موجود ہے۔ اس وجہ سے انہوں نے کسی پیش بندی سے بےنیاز ہو کر انہی کو پہل کرنے کا موقع دیا اور یہ گویا میدان مقابلہ میں ان کی پہلی جیت تھی۔ اس لیے کہ اس کے بعد حریف کو جو شکست ہوئی وہ خود اس کے منتخب کیے ہوئے میدان میں ہوئی۔ فَلَمَّآ اَلْقَوْا۔۔ الایۃ، جب حضرت موسیٰ نے ان کا جادو دیکھا تو فرمایا، مَا جِئْتُمْ بِهِ ۙ السِّحْرُ ، کہ یہ جو کچھ تم نے دکھایا ہے، یہ جادو ہے۔ یہ فرعونیوں کے اس قول کا جواب ہے جو اوپر آیت 76 میں گزرا، قالوا ان ھذا لسحر مبین، کہ انہوں نے حضرت موسیٰ کے معجزے کو دیکھ کہا کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ حضرت موسیٰ نے ان کے اسی قول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تم میرے معجزے کو جادو کہتے تھے۔ جادو وہ نہیں تھا۔ جادو یہ ہے کہ جو تم نے پیش کیا ہے اور تم اب حق کے مقابلہ میں اس کی بےحقیقتی اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے۔ ان اللہ سیبطلہ (اللہ اس کو نابود کردے گا)۔ اس لیے کہ باطل اپنی چمک دمک اسی وقت دکھاتا ہے جب تک حق سے اس کا مقابلہ نہیں ہوتا، جب حق ظاہر ہوجاتا ہے تو باطل جھاگ کی طرح بیٹھ جایا کرتا ہے۔ یہی حقیقت دوسرے مقام میں یوں واضح فرمائی گئی ہے۔ جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا (حق ظاہر ہوگیا اور باطل نابود ہوا، اس لیے کہ باطل نابود ہی ہونے والی چیز ہے)۔ ان اللہ لا یصلح عمل المفسدین۔ لفظ " اصلاح " یہاں بار آور اور نتیجہ خیز کرنے کے معنی میں ہے۔ اسی معنی میں یہ لفظ سورة محمد آیات 2۔ 5 میں بھی استعمال ہوا ہے یعنی مصلحین جو حق لے کر اٹھتے ہیں ان کے مقابل میں مفسدین کی مفسدانہ کوششیں کبھی بار آور نہیں ہوتیں۔ امتحان و آزمائش کا مرحلہ گزرنے کے بعد غلبہ بالآخر حق ہی کو حاصل ہوتا ہے۔ وَيُحِقُّ اللّٰهُ الْحَقَّ۔۔۔ الایۃ، یعنی مجرمین و مفسدین خواہ حق کو دبانے کی کتنی ہی کوششیں کریں لیکن جو لوگ اللہ کا کلمہ لے کر اٹھتے ہیں، اللہ اپنے کلمات کے ذریعہ سے حق کا بول بالا کرتا ہے۔ (یہ امر ملحوظ رہے کہ یہاں حق و باطل کی وہ کشمکش زیر بحث ہے جو ایک رسول کی بعثت سے ظہور میں ٓتی ہے۔ رسول کے لیے، جیسا کہ ہم ایک سے زیادہ مقامات میں واضح کرچکے ہیں، بالآخر غلبہ لازمی ہے۔
Top