Tadabbur-e-Quran - Yunus : 89
قَالَ قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِیْمَا وَ لَا تَتَّبِعٰٓنِّ سَبِیْلَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ
قَالَ : اس نے فرمایا قَدْ اُجِيْبَتْ : قبول ہوچکی دَّعْوَتُكُمَا : تمہاری دعا فَاسْتَقِيْمَا : سو تم دونوں ثابت قدم رہو وَلَا تَتَّبِعٰٓنِّ : اور نہ چلنا سَبِيْلَ : راہ الَّذِيْنَ : ان لوگوں کی جو لَايَعْلَمُوْنَ : ناواقف ہیں
فرمایا تمہاری دعا قبول ہوئی تو تم دونوں جمے رہو اور ان لوگوں کی راہ کی پیروی نہ کیجیو جو علم نہیں رکھتے
قَالَ قَدْ اُجِيْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَــقِيْمَا وَلَا تَتَّبِعٰۗنِّ سَبِيْلَ الَّذِيْنَ لَايَعْلَمُوْنَ۔ مکذبین پر ہلاکت کی تیر بہدف دعا : جو دعا صحیح طریقہ اور ٹھیک وقت پر کی جاتی ہے اس کی قبولیت میں دیر نہیں ہوتی۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون پر دعوت و اصلاح اور انذار و تبلیغ کی ذمہ داری عائد ہوتی تھی چونکہ وہ کما حقہ ادا ہوچکی تھی اس وجہ سے ان کی دعا قبول ہوگئی اور ان کو یہ ہدایت ہوئی کہ اب آگے کے مرحلہ میں ان سرکشوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ جو معاملہ کرنے والا ہے اس کو جی کڑا کر کے دیکھنا۔ ان کی درگت دیکھ کر ان کے لیے دل میں نہ کوئی نرمی ورافت پیدا ہو، نہ ان کے حق میں کوئی کلمہ سفارش کہنا اور نہ کسی پہلو سے اب ان کی چھوت تم کو یا تمہارے ساتھیوں کو لگنے پائے۔ یہ بعینہ اسی طرح کی ہدایت ہے جس طرح کی ہدایت حضرت نوح کو، ان کی قوم کے باب میں فیصلہ عذاب ہوجانے کے بعد کی گئی تھی جس کا ذکر سورة ہود میں یوں ہوا ہے۔ " واصنع الفلک باعیننا ووحینا ولاتخاطبنی فی الذین ظلموا۔ انہم مغرقون : اور کشتی بناؤ ہماری نگرانی میں اور ہماری ہدایت کے مطابق اور ان ظالموں کے باب میں اب ہم سے کچھ نہ کہیو۔ یہ لازماً غرق کیے جائیں گے " (ھود :37)۔ بعینہ اسی قسم کے سیاق وسباق میں نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کو یہ ہدایت کی گئی۔ " فاستقم کما امرت و من تاب معک ولا تطغو۔ انہ بما تعملون بصیر۔ ولا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار وما لکم من دون اللہ من اولیاء ثم لا تنصرون : پس جس طرح تمہیں حکم ملا ہے تم اور جن لوگوں نے تمہارے ساتھ توبہ کی ہے۔ جمے رہو اور سرکشی نہ کیجیو، بےوہ جو کچھ تم کر رہے ہو، اس کو دیکھ رہا ہے اور ان لوگوں کی طرف مائل نہ ہوجیو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا کہ تم کو بھی دوزخ کا عذاب پکڑے اور تمہارے لیے اللہ کے مقابل میں کوئی مددگار نہ ہوگا، پھر تمہاری کوئی مدد نہ کی جائے گی " (112۔ 113۔ ھود)۔ اس قسم کی تنبیہ کا مقصد درحقیقت اپنے گلے کے راعیوں کو ہوشیار و آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ چوکنے رہو کہ تمہارے گلے کی کوئی بھیڑ اس گلے سے نہ جا ملے جس کی ہلاکت اب مقدر ہوچکی ہے اور جس پر اللہ کا عذاب بس آنے ہی والا ہے۔ اس قسم کے مواقع میں خطاب بظاہر پیغمبر سے ہوتا ہے لیکن کلام کا رخ، جیسا کہ دوسرے مواقع میں ہم واضح کرچکے ہیں، دوسروں کی طرف ہوتا ہے چناچہ ہود کی محولہ بالا آیات میں اس کی وضاحت بھی ہوگئی ہے کہ خطاب پہلے واحد سے ہوا، پھر صیغہ جمع کا آگیا۔
Top