Tadabbur-e-Quran - Hud : 105
یَوْمَ یَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِهٖ١ۚ فَمِنْهُمْ شَقِیٌّ وَّ سَعِیْدٌ
يَوْمَ : جس دن يَاْتِ : وہ آئے گا لَا تَكَلَّمُ : نہ بات کرے گا نَفْسٌ : کوئی شخص اِلَّا : مگر بِاِذْنِهٖ : اس کی اجازت سے فَمِنْهُمْ : سو ان میں سے شَقِيٌّ : کوئی بدبخت وَّسَعِيْدٌ : اور کوئی خوش بخت
جب وہ دن آئے گا کوئی جان اس کے اذن کے بغیر کلام نہ کرسکے گی۔ پس ان میں کچھ بدبخت ہوں گے، کچھ نیک بخت
يَوْمَ يَاْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۚ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَّسَعِيْدٌ۔ جھوٹی شفاعت کی تردید : جب وہ گھڑی آئے گی تو کسی کی مجال نہ ہوگی کہ خدا کے اذن کے بغیر کوئی اس سے بات کرنے کے لیے زبان ہلاسکے۔ یہ مشرکین کے اس گمان کی تردید ہے کہ ان کے معبودوں کو خدا کے ہاں عزت و اعتماد کا وہ مقام حاصل ہے کہ خواہ ان کے اعمال کچھ ہی کیوں نہ ہوں لیکن وہ اپنے پجاریوں کو بہرحال چھڑا ہی لیں گے اور خدا ان کی دلداری میں مجبور ہوگا کہ ان کی سفارش سنے اور ان کی بات مانے۔ فرشتوں کی نسبت ان کا گمان تھا کہ یہ خدا کی چہیتی بیٹیاں ہیں اور جس طرح چہیتی بیٹیاں ناز اور تدلل سے اپنی ہر بات اپنے باپ سے منوا لیتی ہیں اسی طرح یہ اپنے باپ یعنی خدا سے ان سارے لوگوں کو بخشوا لیں گی جو دنیا میں ان کی عبادت کرتے رہے۔ اس آیت نے ان تمام بےبنیاد اور خیالی توقعات کا خاتمہ کردیا۔ خدا کا کسی کی ناز برداری کرنا تو درکنار اس کے آگے کوئی زبان ہی نہیں کھولے گا جب تک وہ اس کو اجازت نہ دے۔ دوسرے مقام میں اس بات کی بھی تصریح ہے کہ جو خدا کی اجازت کے بعد زبان کھولے گا بھی، وہ وہی بات کہے گا جو حق ہوگی۔ سرمو حق سے تجاوز نہ کرسکے گا۔ فمنہم شقی و سعید۔ یعنی جو لوگ محشر میں جمع ہوں گے ان میں سے کچھ بدبخت اور محروم القسمت ہوں گے اور کچھ خوش بخت اور فائز المرام۔ پہلا گروہ دوزخ میں جائے اور دوسرا گروہ جنت سے نوازا جائے گا اور ان میں سے ہر ایک کی بدبختی یا خوش بختی اس کے اعمال پر مبنی ہوگی۔
Top