Tadabbur-e-Quran - Hud : 111
وَ اِنَّ كُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّهُمْ رَبُّكَ اَعْمَالَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ بِمَا یَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ
وَاِنَّ : اور بیشک كُلًّا : سب لَّمَّا : جب لَيُوَفِّيَنَّهُمْ : انہیں پورا بدلہ دیگا رَبُّكَ : تیرا رب اَعْمَالَهُمْ : ان کے عمل اِنَّهٗ : بیشک وہ بِمَا يَعْمَلُوْنَ : جو وہ کرتے ہیں خَبِيْرٌ : باخبر
اور یقیناً تیرا رب ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ پورا کر کے رہے گا۔ وہ جو کچھ یہ کر رہے ہیں اس سے باخبر ہے
وَاِنَّ كُلًّا لَّمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ رَبُّكَ اَعْمَالَهُمْ ۭ اِنَّهٗ بِمَا يَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ۔ " لما " میں " ل " تاکید اور قسسم کا ہے اور ما زائد کبھی کبھی مھض جملہ کے آہند اور صوت کو ٹھیک رکھنے کے لیے آتا ہے۔ مثلا ان کل ذلک لما متاع الحیواۃ الدنیا : بیشک یہ ساری چیزیں دنیوی زندگی کی متاع ہیں۔ اسی طرح سورة طارق میں ہے ان کل نفس لما علیہا حافظ : بیشک ہر جان پر ایک نگران مقرر ہے۔ لفظ " کل " اگرچہ عام ہے لیکن یہاں اس سے مراد وہی گروہ ہیں جو اوپر مذکور ہوئے یعنی مشرکین قریش اور یہود فرمایا کہ یہ لوگ دعوت حق کی مخالفت میں جو ایڑی چوٹی کا زور لوگانا چاہتے ہیں لگا لیں۔ وہ وقت بھی آئے گا جب تیرا رب ان کے سارے اعمال کا بھپور بدلہ ان کو دے گا۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں اس سے وہ پوری طرح باخبر ہے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ دعوت کا جو مرحلہ یہاں زیر بحث ہے اس میں یہود نے بھی قریش کی پیٹھ ٹھونکنی شروع کردی تھی۔
Top