Tadabbur-e-Quran - Hud : 114
وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ١ؕ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِ١ؕ ذٰلِكَ ذِكْرٰى لِلذّٰكِرِیْنَۚ
وَاَقِمِ : اور قائم رکھو الصَّلٰوةَ : نماز طَرَفَيِ : دونوں طرف النَّهَارِ : دن وَزُلَفًا : کچھ حصہ مِّنَ : سے (کے) الَّيْلِ : رات اِنَّ : بیشک الْحَسَنٰتِ : نیکیاں يُذْهِبْنَ : مٹا دیتی ہیں السَّيِّاٰتِ : برائیاں ذٰلِكَ : یہ ذِكْرٰي : نصیحت لِلذّٰكِرِيْنَ : نصیحت ماننے والوں کے لیے
اور نماز کا اہتمام کرو دن کے دونوں حصوں میں اور شب کے کچھ حصہ میں بیشک نیکیاں دور کرتی ہیں بدیوں کو یہ یاد دہانی ہے یاد دہانی حاصل کرنے والوں کے لیے
114۔ 115:۔ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ ۭ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّاٰتِ ۭ ذٰلِكَ ذِكْرٰي لِلذّٰكِرِيْن۔ وَاصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ۔ نماز ذریعہ استقامت ہے : یہ اس صبر و استقامت کے حصول کی تدبیر بیان ہوئی ہے جس کی اوپر والی آیات میں ہدایت فرمائی گئی ہے۔ قرآن میں یہ بات جگہ جگہ واضح کی گئی ہے کہ خدا کی راہ میں شیطان اور ان کے اعوان کی طرف سے جو مزاحمتیں پیش آتی ہیں ان کے مقابلہ کے لیے روحانی طاقت نماز ہی سے ہوتی ہے۔ یہی چیز بندے کو خدا سے جوڑتی ہے اور جب بندہ اپنے رب سے جڑ جاتا ہے تو اس پر انوار و برکات رحمانی کا فیضان ہوتا ہے، دل وسوسوں اور کمزوریوں سے پاک اور وہ پورے عزم و حوصلہ سے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ سورة طہ میں صبر اور نماز کا یہ باہمی تعلق اس طرح واضح فرمایا گیا ہے۔ فاصبر علی ما یقولون و سبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل غروبہا ومن انائ الیل فسبح و اطراف النہار لعلک ترضی : پس صبرو کرو ان باتوں پر جو وہ کہتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرو سورج کے طلوع اور اس کے غروب سے پہلے اور رات کے وقتوں میں بھی اس کی تسبیح کرو اور دن کے اطراف میں بھی تاکہ تم نہال ہوجاؤ (طہ :130)۔ آیت زیر بحث میں اوقات نماز کی تفصیل نہیں ہے لیکن طہ کی مذکورہ بالا آیت پر غور کیجیے تو اس میں نہ صرف پانچ فرض نمازوں کے اوقات کی طرف اشارہ ہے بلکہ چاشت اور تہجد کے اوقات بھی اس میں مضمر ہیں لیکن یہاں ہم صرف صبر اور نماز کے باہمی تعلق کو واضح کرنا چاہتے ہیں۔ اوقات نماز کے مسئلہ پر انشاء اللہ اس کے محل میں بحث کریں گے۔ ایک جامع تنبیہ : ان الحسنا یذھبن السیات۔ ایک جامع کلیہ ہے۔ لفظ حسنات، نے نماز اور اس کے خاندان کی دوسری تمام نیکیوں کو اپنے اندر سمیٹ لیا۔ مطلب یہ ہے کہ ان بھلائیوں ہی میں زیادہ سے زیادہ سرگرم رہو اس لیے کہ یہی ان برائیوں کو مٹائیں گی جو اندر سے یا باہر سے سر اٹھا سکتی ہیں۔ ذالک ذکری للذکرین۔ یہ اس ہدایت کی قدروقیمت کی طرف توجہ دلا دی گئی ہے کہ اس کو معمولی بات نہ سمجھنا۔ یہ سننے اور سمجھنے والوں کے لیے بڑی گراں مایہ موعظت ہے۔ یہ تنبیہ اس لیے ضروری تھی کہ ہر شخص کے لیے یہ سمجھنا آسان نہیں تھا کہ نماز راہ حق میں جہاد کا سب سے بڑا ہتھیار بھی ہے۔ خوب کاروں کا صبر : واصبر فان اللہ لا یضیع اجر المحسنین : اسی صبر کو مستحکم اور غیر متزلزل بنانے کے لیے اوپر والی آیت میں، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، نماز کا حکم ہے۔ نماز سے پہلے استقامت اور نماز کے بعد صبر کے ذکر میں ایک اشارہ اس حقیقت کی طرف بھی ہے کہ پامردی اور استقلال محمود اسی صورت میں ہے جب آدمی کا رخ صحیح سمت میں ہو۔ علاوہ ازیں ایک اور نکتہ بھی اس آیت میں ہے۔ وہ یہ کہ یوں نہیں فرمایا کہ صبر کرو اس لیے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرے گا۔ بلکہ یوں فرمایا کہ صبرو اس لیے کہ اللہ خوب کاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرے گا۔ اس سے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ صبر بھی خدا کے ہاں عزیز و محبوب اور سزوار اجر انہی لوگوں کا ہے جو اس طرح صبر کریں جس طرح صبر کرنے کا حق ہے۔ رو دھو کر اور گلے شکوے کر کے تو سب ہی صبر کرلیتے ہیں۔ خوب کاروں کا صبر یہ ہے کہ سروں پر آرے چل جائیں لیکن نہ دل گلہ مند ہو نہ پیشانی پر بل آنے پائے۔ جو لوگ اس شان و وقار سے صبر کرتے ہیں ان کا اجر کبھی ضائع نہیں جاتا۔ لفظ " احسان " پر دوسرے مقام میں بحث کر کے ہم یہ بتا چکے ہی کہ اس کے معنی کسی کام کو نہایت خوبی کے ساتھ کرنے کے بھی آتے ہیں۔
Top