Tadabbur-e-Quran - Hud : 38
وَ یَصْنَعُ الْفُلْكَ١۫ وَ كُلَّمَا مَرَّ عَلَیْهِ مَلَاٌ مِّنْ قَوْمِهٖ سَخِرُوْا مِنْهُ١ؕ قَالَ اِنْ تَسْخَرُوْا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُوْنَؕ
وَيَصْنَعُ : اور وہ بناتا تھا الْفُلْكَ : کشتی وَكُلَّمَا : اور جب بھی مَرَّ : گزرتے عَلَيْهِ : اس پر مَلَاٌ : سردار مِّنْ : سے (کے) قَوْمِهٖ : اس کی قوم سَخِرُوْا : وہ ہنستے مِنْهُ : اس سے (پر) قَالَ : اس نے کہا اِنْ : اگر تَسْخَرُوْا : تم ہنستے ہو مِنَّا : ہم سے (پر) فَاِنَّا : تو بیشک ہم نَسْخَرُ : ہنسیں گے مِنْكُمْ : تم سے (پر) كَمَا : جیسے تَسْخَرُوْنَ : تم ہنستے ہو
اور وہ کشتی بنانے لگا، اور جب جب اس کی قوم کے بڑوں کی کوئی جماعت اس کے پاس سے گزرتی تو اس کا مذاق اڑاتی۔ وہ ان کو جواب دیتا کہ اگر تم ہمارا مذاق اڑا رہے ہو تو جس طرح تم مذاق اڑا رہے ہو اسی طرح ہم بھی تمہارا مذاق اڑائیں گے
وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ ۣ وَكُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ مَلَاٌ مِّنْ قَوْمِهٖ سَخِرُوْا مِنْهُ ۭقَالَ اِنْ تَسْخَرُوْا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُوْنَ۔ و یصنع الفلک، جعل یصنع الفلک، عربی زبان کے معروف اسلوب کے مطابق مضارع سے پہلے فعل ناقص حذف ہوگیا ہے۔ قوم نوح کی پھبتیاں : حضرت نوح ؑ نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق کشتیاں بنانی شروع کردی۔ ان کی قوم کے متکبرین جو عذاب کی دھمکی ہی کو سرے سے نعوذ باللہ لاف زنی سمجھتے تھے، انہوں نے جب دیکھا کہ عذاب سے بچاؤ کے لیے کشتی بھی بننی شروع ہوگئی ہے تو ظاہر ہے کہ انہوں نے اس کو خلل دماغ ہی پر محمول کیا ہوگا اور جب جب پاس سے گزرتے ہوں گے خوب خوب پھبتیاں چست کرتے رہے ہوں گے اور کون اندازہ کرسکتا ہے کہ ان پھبتیوں کا حضرت نوح اور ان کے ساتھیوں کے دلوں پر کیا اثر پڑتا رہا ہوگا۔ لیکن انبیاء اور ان کے ساتھیوں کو اس طرح کے امتحانات سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ اسی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جس غیب سے وہ لوگوں کو ڈراتے ہیں اس پر ان کو کس درجے کا یقین ہوتا ہے۔ گویا وہ اس کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں، اگرچہ اپنے مخالفوں کو اس کو دکھا نہیں سکتے۔ ایک خاص اسلوب بیان : فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُوْنَ سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہم بھی اسی طرح کی مبتذل پھبتیاں تم پر چست کریں گے جس طرح کی پھبتیاں تم چست کر رہے ہو۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ آج جس طرح ہمارا یہ فعل تمہاری نگاہوں میں سامان مضحکہ ہے اسی طرح کل تمہارا انجام ہمارے لیے موجب ازدیاد ایمان و اطمینان ہوگا۔ آج تم ہنس رہے ہو کل کو تم رو وگے اور ہم نصرت الٰہی کے ظہور پر مسرور و مبتہج اور اپنے رب کے شکر گزار ہوں گے۔ بعض مرتبہ جملہ میں صوتی ہم آہنگی کے اقتضا سے لفظ ایک ہی استعمال ہوتا ہے لیکن اس کا مفہوم الگ الگ ہوتا ہے۔ جیسے کہ دنا ہم کما دانوا، میں ہے کسی کی مصیبت پر خوش ہونا عام حالات میں تو اچھی بات نہیں ہے لیکن جن لوگوں پر اس طرح حجت تمام ہوچکی ہو جس طرح حضرت نوح اور ان کے ساتھیوں نے اپنی قوم پر تمام کی ان پر عذاب الٰہی کا نزول حق کی فتح مندی اور باطل کی ہزیمت کا ایک یادگار واقعہ ہوتا ہے جس پر اہل ایمان کا خوش ہونا عین مقتضائے ایمان ہوتا ہے۔
Top