Tadabbur-e-Quran - Hud : 40
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوْرُ١ۙ قُلْنَا احْمِلْ فِیْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَ اَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ وَ مَنْ اٰمَنَ١ؕ وَ مَاۤ اٰمَنَ مَعَهٗۤ اِلَّا قَلِیْلٌ
حَتّٰٓي : یہاں تک کہ اِذَا جَآءَ : جب آیا اَمْرُنَا : ہمارا حکم وَفَارَ : اور جوش مارا التَّنُّوْرُ : تنور قُلْنَا : ہم نے کہا احْمِلْ : چڑھا لے فِيْهَا : اس میں مِنْ : سے كُلٍّ زَوْجَيْنِ : ہر ایک جوڑا اثْنَيْنِ : دو (نرو مادہ) وَاَهْلَكَ : اور اپنے گھر والے اِلَّا : سوائے مَنْ : جو سَبَقَ : ہوچکا عَلَيْهِ : اس پر الْقَوْلُ : حکم وَمَنْ : اور جو اٰمَنَ : ایمان لایا وَمَآ : اور نہ اٰمَنَ : ایمان لائے مَعَهٗٓ : اس پر اِلَّا قَلِيْلٌ : مگر تھوڑے
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور طوفان ابل پڑا، ہم نے اس کو کہا کہ ہر چیز میں سے نر و مادہ دونوں کو اور اپنے اہل و عیال کو، بجز ان کے جن پر حکم نافذ ہوچکا ہے، اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں، اس کشتی میں سوار کرالو، اور اس کے ساتھ ایمان لانے والوں کی تعداد تو بس تھوڑی ہی تھی
ﱑ اِذَا جَاۗءَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُ ۙ قُلْنَا احْمِلْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ ۭ وَمَآ اٰمَنَ مَعَهٗٓ اِلَّا قَلِيْلٌ۔ فار یفور کے معنی جوش مارنے کے ہیں۔ یہ لفظ پکتی ہوئی ہانڈی کے جوش مارنے کے ہیں۔ یہ لفظ پکتی ہوئی ہانڈی کے جوش مارنے اور ابلنے کے لیے بھی آتا ہے اور بھڑکتے ہوئے تنور کے جوش مارنے کے لیے بھی۔ یہاں فار التنور کا محاورہ بطریق استعارہ اس سائیکلونی طوفانی کی تعبیر کے لیے استعمال ہوا ہے جو قوم نوح پر آیا، جس سے سخت بارش بھی ہوئی اور آس پاس کے سمندروں کا پانی بھی ابل پڑا۔ حضرت استاز ؒ، سورة ذاریات کی تفسیر میں، قوم نوح کے عذاب کی نوعیت واضح کرتے ہوئے آخر میں خلاصہ بحث یوں ہوئی، تحریر فرماتے ہیں۔ " اس تفصیل سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ قوم نوح پر تند اور چکر دار ہوا کا طوفان آیا جس سے سخت بارش ہوئی، پاس کے سمندر کا پانی ابل پڑا اور ہر طرف سے موجیں اچھلنے لگیں۔ اس طوفان کے اندر نوح ؑ کا سفینہ کوہ جودی پر جاٹکا۔ تفسیر سورة ذاریات از فراہی۔ امر سے مراد اس آیت میں میں بھی اور آگے آیت 43 میں بھی وہ عذاب ہے جو حکم الٰہی سے ظہور میں آیا۔ فرمایا کہ جب عذاب آیا اور طوفان ابل پڑا۔ ہم نے نوح کو حکم دیا کہ ہر چیز میں سے نر و مادہ دو دو کو اپنے اہل و عیال کو اور جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کو اس کشتی میں سوار کرالو۔ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ۔ یعنی تمہارے اہل میں سے وہ لوگ اس میں شامل نہیں ہیں جن کے باب میں خدا کا فیصلہ پہلے ہی صادر ہوچکا ہے۔ اس فیصلہ سے مراد وہ فیصلہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے شیطان کو روز اول ہی اس کے الٹی میٹم کے جواب میں سنا دیا تھا کہ جنوں اور انسانوں میں سے جو تیری پیروی کریں گے میں ان سب کو جہنم میں بھردوں گا۔ مطلب یہ ہے کہ جو اس حکم ازلی کی زد میں آچ کے ہیں وہ تو اس میں سوار ہونے سے محروم رہیں گے۔ باقی کو اس میں سوار کرالو۔ ایمان سے محروم اکثریت گندگی کا ڈھیر ہے : وَمَآ اٰمَنَ مَعَهٗٓ اِلَّا قَلِيْلٌ سے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ یہ ہولناک طوفان تمام موجود انسانوں کی عظیم اکثریت کو بہا لے گیا صرف تھوڑے سے لوگ، جو حضرت نوح پر ایمان لائے تھے، اس سے محفوظ رہے۔ اس سے اللہ جل شانہ کی بےنیازی کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ اس کی نگاہوں میں وہ اکثرتیت گندگی کا ایک ڈھیر ہے جو ایمان سے محروم ہے، وہ اس گندگی سے اپنی زمین کو پاک ہی دیکھنا پسند کرتا ہے اور مجرد اس بنیاد پر کہ مقدار زیادہ ہے اپنی زمین پشت پر اس کو لادے رکھنا پسند نہیں کرتا۔ ساتھ ہی اہل ایمان کے لیے اس کی بےپایاں رحمت کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ ہرچند ان کی تعداد کتنی ہی کم ہو، لیکن خدائے رءوف و رحیم ان جواہر ریزوں کی ہر حال میں اپنے دامن رحمت میں حفاظت فرماتا ہے یہاں تک کہ طوفان نوح بھی ان کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔ اس پہلو سے اس تکڑے میں قریش کی مغرور اکثریت کے لیے وعید بھی ہے اور ان کے اندر کے ان قلیل التعداد اور مظلوم مسلمانوں کے لیے عظیم پیغام تسلی بھی جو آنحضرت ﷺ پر ایمان لائے تھے اور اس دور میں قریش کے ظلم و ستم کے ہدف بنے ہوئے تھے۔
Top