Tadabbur-e-Quran - Hud : 58
وَ لَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا هُوْدًا وَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا١ۚ وَ نَجَّیْنٰهُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِیْظٍ
وَلَمَّا : جب جَآءَ : آیا اَمْرُنَا : ہمارا حکم نَجَّيْنَا : ہم نے بچا لیا هُوْدًا : ہود وَّالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے مَعَهٗ : اس کے ساتھ بِرَحْمَةٍ : رحمت سے مِّنَّا : اپنی وَنَجَّيْنٰهُمْ : اور ہم نے بچا لیا مِّنْ : سے عَذَابٍ : عذاب غَلِيْظٍ : سخت
اور جب ہمارا عذاب آ دھمکا ہم نے ہود کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے، اپنے فضل خاص سے نجات بخشی۔ اور ہم نے ان کو ایک نہایت ہی سخت عذاب سے بچایا
وَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا نَجَّيْنَا هُوْدًا وَّالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا ۚ وَنَجَّيْنٰهُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِيْظٍ۔ قوم عاد کے عذاب کی نوعیت : " امر " سے مراد یہاں وہ عذاب ہے جو امر الٰہی کے تحت ظہور میں آیا۔ اس عذاب کی نوعیت کیا تھی ؟ اس کی کوئی تفصیل یہاں نہیں ہے۔ ہمارے استاذ مولانا فراہی نے سورة ذاریات کی تفسیر میں اس کی نوعیت پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ اس بحث کی تمہید مولانا نے یوں اٹھائی ہے۔ " قرآن مجید میں قوم عاد کی ہلاکت کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں ان پر جو شخص غور کرے گا اس سے حقیقت مخفی نہیں رہ سکتی کہ وہ تند ہوا کے ذریعے سے ہلاک کیے گئے جس کے ساتھ سرما کے وہ بادل بھی تھے جو ہمیشہ رعد و برق کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں۔ قرآن میں جہاں ان کی تباہی کا ذکر ہوا ہے ہوا کے ساتھ پانی سے خالی بادلوں اور صاعقہ کا بھی ذکر ہوا ہے۔ سورة احقاف میں ہے۔ فلما راوہ عارضا مستقبل اودیتہم قالوا ھذا عارض ممطرنا بل ھو اماستعجلہتم بہ ریح فیہا عذاب الیم تدمر کل شیء بامر ربہا۔ پس جب انہوں نے اس (عذاب کو) دیکھا ابر کی صورت میں اپنی وادیوں کی طرف بڑھتے ہوئے، بولے یہ تو بادل ہے جو ہم پر برسنے والا ہے بلکہ یہ وہ چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچائے ہوئے تھے۔ باد تند، جس کے ادنر ایک دردناک عذاب ہے۔ یہ اکھاڑ پھینکے گی ہر چیز کو اپنے رب کے حکم سے)۔ ظاہر یہ تمام خصوصیات موسم کی باد تند کی ہیں۔ اس زمانے میں، عرب بادشامل صر صر کی شکل میں نمودار ہوتی ہے اور قحط و خشکی کی ایک عام نحوست اور تباہی ہر طرف پھیل جاتی ہے۔ سورة قمر میں اسی چیز کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ انا ارسلنا علیہم ریحا صرصرا فی یوم نحس مستمر (اور ہم نے ان پر باد صرصر چلا دی قائم رہنے والی نحوست کے زمانے میں) اسی طرح سورة۔۔ میں ہے فارسلنا علیہم ریحا صرصرا فی ایام نحسان (پس ہم نے ان پر باد صر صر چلا دی نحوست کے زمانے) باد صر صر کے یہ طوفان، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، عرب میں جاڑوں میں ظاہر ہوتے ہیں اور یہی زمانہ ان کے ہاں نحوست اور فاقہ کا سمجھا جاتا ہے " (تفسیر سورة ذاریات فراہی۔ فصل 17) اہل ایمان پر اللہ کا فضل : جب یہ عذاب نازل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے مطابق اپنے رسول حضرت ہود اور ان کے باایمان ساتھیوں کو اپنے فضل ؒ خاص سے اس عذاب سے بچا لیا اور باقی سب کو فنا کردیا۔ برحمۃ منا سے اس رحمت کی عظمت و شان ظاہر ہورہی ہے اس لیے کہ جو عذاب پورے علاقہ پر آیا، اس سے تھوڑے سے مخصوص لوگوں کو اس طرح اپنی رحمت کے پروں کے نیچے چھپا کر بچا لینا عنایت الٰہی کا ایک عظیم کرشمہ ہے، ونجایناہم من عذاب غلیظ۔ یعنی یہ نہ سمجھو کہ ہم نے انہیں کسی معمولی آفت سے چھڑایا بلکہ نہایت ہی سخت و شدید عذاب سے چھڑایا۔ اس سے عذاب کی ہولناکی کا بھی اظہار ہو رہا ہے اور اس عظیم رحمت کا بھی جو حضرت ہود اور ان کے ساتھیوں کے لیے ظاہر ہوئی۔ مفسرین نے عام طور پر اس سے عذاب آخرت مراد لیا ہے لیکن ہم نے جو اس کا خاص پہلو واضح کیا ہے وہ موقع و محل سے نہایت واضح مناسبت رکھتا ہے۔
Top