Tadabbur-e-Quran - Ibrahim : 27
یُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِ١ۚ وَ یُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِیْنَ١ۙ۫ وَ یَفْعَلُ اللّٰهُ مَا یَشَآءُ۠   ۧ
يُثَبِّتُ : مضبوط رکھتا ہے اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ لوگ جو ایمان لائے (مومن) بِالْقَوْلِ : بات سے الثَّابِتِ : مضبوط فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَ : اور فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں وَيُضِلُّ : اور بھٹکا دیتا ہے اللّٰهُ : اللہ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) وَيَفْعَلُ : اور کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ مَا يَشَآءُ : جو چاہتا ہے
اللہ اہل ایمان کو قول محکم کی بدولت دنیا کی زندگی میں بھی ثبات عطا فرمائے گا اور آخرت میں بھی اور اللہ اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والوں کے اعمال رائگاں کردے گا اور اللہ جو چاہے کرتا ہے
يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ ۚ وَيُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِيْنَ ڐ وَيَفْعَلُ اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ۔ " کلمہ ثابت " سے مراد کلمہ توحید ہے : قول ثابت سے مراد وہی کلمہ توحید ہے جس کی آسمان و زمین اور فطرت و کائنات دونوں میں پائداری و استواری کی تعریف اوپر گزر چکی ہے۔ وَيُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِيْنَ میں اضلال سے مراد کوششوں اور محنتوں کو رائیگاں کردینا ہے جیسا کہ سورة محمد کی آیت 1 میں ہے " الذین کفروا وصدوا عن سبیل اللہ اضل اعمالہم (جنہوں نے کفر کیا اور خدا کی راہ سے لوگوں کو روکا خدا نے ان کی کوششیں رایگاں کردیں) "۔ ظالمین سے مراد مشرکین ہیں اس لیے کہ شرک، جیسا کہ قرآن میں تصریح ہے، سب سے بڑا ظلم ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ توحید کے کلمہ ثابت و محکم کی بدولت اہل ایمان کو تو دنیا اور آخرت دونوں میں پائیداری و استواری بخشے گا۔ رہے مشرکین تو اللہ ان کے سارے اعمال کو، جیسا کہ اوپر گزرا، راکھ اور خاک کی طرح برباد کردے گا۔ وَيَفْعَلُ اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ۔ ، یعنی خدا جو چاہتے گا کر ڈالے گا، نہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا بن سکے گا اور نہ کسی سعی و سفارش اس کے ہاں کچھ کام آئے گی۔ وہ بات یہاں پیش نظر رہے جس کا ذکر ہم بار بار کرچکے ہیں کہ خدا کی مشیت ہمیشہ اس کے عدل اور اس کی حکمت کے ساتھ ہے۔
Top