Tadabbur-e-Quran - Ibrahim : 31
قُلْ لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ یُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ لَا خِلٰلٌ
قُلْ : کہ دیں لِّعِبَادِيَ : میرے بندوں سے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْا : ایمان لائے يُقِيْمُوا : قائم کریں الصَّلٰوةَ : نماز وَيُنْفِقُوْا : اور خرچ کریں مِمَّا : اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں دیا سِرًّا : چھپا کر وَّعَلَانِيَةً : اور ظاہر مِّنْ قَبْلِ : اس سے قبل اَنْ يَّاْتِيَ : کہ آجائے يَوْمٌ : وہ دن لَّا بَيْعٌ : نہ خریدو فروخت فِيْهِ : اس میں وَلَا خِلٰلٌ : اور نہ دوستی
میرے ان بندوں کو جو ایمان لائے ہیں کہہ دو کہ نماز کا اہتمام رکھیں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا کیا ہے اس میں سے پوشیدہ و علانیہ خرچ کریں پیشتر اس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خریدو فروخت ہوگی اور نہ دوستی کام آئے گی
قُلْ لِّعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَيُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خِلٰلٌ۔ خلٰل کے معنی دوستی اور مواخات کے ہیں اور لفظ " بیع " بعض مواقع میں خریدو فروخت دونوں معنوں میں آتا ہے۔ جب تبادلہ چیز کا چیز سے ہو تو معاملت کے دونوں فریق بائع بھی ہوتے ہیں اور مشتری بھی۔ مسلمانوں کو پیغام : قریش کو کو انذیر کے بعد اب یہ پیغام مسلمانوں کے لیے ہے کہ ان سے کہہ دو کہ وہ نماز کا اہتمام کریں اور خدا کی راہ میں سرا و علانیۃ دونوں طرح خرچ کریں۔ سراً اس لیے کہ انفاق فی سبیل اللہ کی اصل روح اخلاص ہے اور یہ اسی انفاق میں پایا جاتا ہے جو درپردہ ہو اور علانیۃً اس لیے کہ ایک پہلو اس کا بھی باعث خیر و برکت ہے۔ وہ یہ کہ اس سے دوسروں کو انفاق کی ترغیب و تشویق ہوتی ہے۔ سراً کی تقدیم سے یہ بات نکلتی ہے کہ اس طرح کا انفاق اولی و افضل ہے۔ انفاق کی اصل ضرورت : لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خِلٰلٌ، میں اس انفاق کی اصل ضرورت کا اظہار ہے کہ اصلاً یہ دوسروں کے لیے مطلوب نہیں ہے بلکہ خود خرچ کرنے والے کی اپنی نجات و فلاح کے لیے یہ مطلب ہے اس لیے کہ آگے ایک ایسا دور آنے والا ہے جس میں نہ خریدو فروخت ہوگی نہ دوستی اور رشتہ داری کام آئے گی۔ اگر کام آئے گا تو یہی انفاق جو کسی نے اللہ کی راہ میں کیا ہوگا۔ مسلمانوں کو مستقبل کی کامیابی کی بشارت : آیت کے الفاظ، اس کے اسلوب اور موقع و محل پر اچھی طرح غور کیجیے تو اس کے اندر مسلمانوں کے لیے مستقبل کی کامیابی کی بشارت بھی مضمر ہے۔ اس کے اندر یہ بات پوشیدہ ہے کہ قریش نے تو جو امانت حضرت ابراہیم ؑ سے ورثہ میں پائی تھی اس کے تمام مقاصد برباد کرکے رکھ دیے۔ اب اہل ایمان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ ان مقاصد کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں اور اس امانت کے امین بنیں۔
Top