Tadabbur-e-Quran - Ibrahim : 32
اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ١ۚ وَ سَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِیَ فِی الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖ١ۚ وَ سَخَّرَ لَكُمُ الْاَنْهٰرَۚ
اَللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ : وہ جو خَلَقَ : اس نے پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین وَاَنْزَلَ : اور اتارا مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے مَآءً : پانی فَاَخْرَجَ : پھر نکالا بِهٖ : اس سے مِنَ : سے الثَّمَرٰتِ : پھل (جمع) رِزْقًا : رزق لَّكُمْ : تمہارے لیے وَسَخَّرَ : اور مسخر کیا لَكُمُ : تمہارے لیے الْفُلْكَ : کشتی لِتَجْرِيَ : تاکہ چلے فِي الْبَحْرِ : دریا میں بِاَمْرِهٖ : اس کے حکم سے وَسَخَّرَ : اور مسخر کیا لَكُمُ : تمہارے لیے الْاَنْهٰرَ : نہریں (ندیاں)
اللہ ہی جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور بادلوں سے پانی اتارا پھر اس سے مختلف قسم کے پھل تمہارے رزق کے لیے پیدا کیے اور کشتی کو تمہاری نفع رسانی میں لگا دیا تاکہ وہ سمندر میں اس کے حکم سے چلے اور اس نے دریاؤں کو بھی تمہاری نفع رسانی میں لگا دیا تاکہ وہ سمندر میں اس کے حکم سے چلے اور اس نے دریاؤں کو بی تمہاری نفع رسانی میں لگا دیا
تفسیر آیات 32 تا 34:۔ اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۚ وَسَخَّــرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖ ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْاَنْهٰرَ۔ وَسَخَّــرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَاۗىِٕـبَيْنِ ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ۔ وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ ۭ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ۔ یہ اسی مضمون کی مزید وضاحت ہے جو اوپر گزر چکا ہے کہ نعمتیں تو ساری کی ساری اللہ نے بخشیں لیکن ظالم مشرکوں نے ان میں سے ایک ایک کو اپنے مزعومہ دیوتاؤں کی طرف منسوب کرکے ان کی عبادت شروع کردی۔ بارش، کشتی، دریا، سورج، چاند شب اور روز سب کو انسان کی نفع رسانی میں اللہ نے سرگرم کیا ہے لیکن ان میں سے بعض چیزوں کو نادانوں نے خود دیوتا بنا دیا اور جن کو دیوتا نہیں بنایا ان پر دوسرے دیوتا حاکم و متصرف بنا دیے اور ان کے جے پکارنے لگے۔ سَخَّــرَ لَكُمُ کا مفہوم ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں کہ کسی شے کو کسی کی نفع رسانی میں لگادینے کا ہے۔ آسمان و زمین، سورج اور چاند سب مسخر خدا ہی کے ہاتھ میں ہیں، البتہ خدا نے ان کو انسان کی نفع رسانی میں لگا رکھا ہے اور یہ اس کا فضل و کرم ہے۔ وَسَخَّــرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَاۗىِٕـبَيْنِ ، " دائب " کے معنی مستمر کے ہیں۔ یعنی ایک ہی اندازہ، ایک ہی راہ اور ایک ہی مدارو مستقر پر سیکنڈ اور منٹ کی پابندی کے ساتھ، اپنی مفوضہ خدمت کی انجام دہی میں مصروف ہیں، مجال نہیں کہ اس میں سرِ مو فرق آنے پائے۔ غور کرو کہ یہ ان کے دیوتا ہونے کی علامت ہے یا اصل حاکم کائنات خدائے عزیز وعلیم کے محکوم و مقہور ہونے کی۔ وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ ، یہ خطاب انسان سے بحیثیت انسان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم اپنی فطرت و خلقت کی رو سے جن چیزوں کے محتاج بنائے گئے ان ساری چیزوں میں سے اللہ نے تمہیں اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق بخشیں۔ طلب اور اس کے جواب میں یہ کامل مطابقت خود سب سے بڑی شہادت اس بات کی ہے کہ جس نے تم کو پیدا کیا اسی نے تمہاری ساری ضرورتوں کا اہتمام فرمایا ہے۔ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ۔ لفظ انسان اگرچہ عام ہے لیکن روئے سخن انہی مشرکین کی طرف ہے جن کا ذکر اوپر کی آیت میں گزرا۔ چونکہ وہ اپنی نالائق کے سبب سے لائق التفات نہیں اس وجہ سے بات عام صیغہ سے کہہ دی گئی۔ ظلوم کے معنی حق کو تلف کرنے والا۔ ہم دوسرے مقام میں یہ واضح کرچکے ہیں کہ شرک کا ارتکاب کرکے انسان خدا کے حق کو بھی تلف کرتا ہے اور خود اپنے نفس کے حق کو بھی۔ " کفار " کے معنی ناشکرے کے ہیں، جو نعمت تو کسی اور سے پاتا ہے اور گن کسی اور کے گاتا ہے۔
Top