Tadabbur-e-Quran - Al-Hijr : 6
وَ قَالُوْا یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌؕ
وَقَالُوْا : اور وہ بولے يٰٓاَيُّھَا : اے وہ الَّذِيْ نُزِّلَ : وہ جو کہ اتارا گیا عَلَيْهِ : اس پر الذِّكْرُ : یاد دہانی (قرآن) اِنَّكَ : بیشک تو لَمَجْنُوْنٌ : دیوانہ
اور یہ کہتے ہیں کہ اے وہ شخص جس پر یاد دہانی اتاری گئی ہے تم تو ایک خبطی ہو
تفسیر آیت 6 تا 7: وَقَالُوْا يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْ نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُوْنٌ۔ لَوْ مَا تَاْتِيْنَا بِالْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ۔ آنحضرت ﷺ کو طنزیہ انداز میں خطاب کرکے کہتے کہ اے وہ شخص جو مدعی ہے کہ اس پر خدا کی طرف سے ہمارے لیے یاد دہانی اتری ہے تم تو ہمیں ایک خبطی معلوم ہوتے ہو کہ ہمیں تو عذاب کی دھمکی سنا رہے ہو اور اپنے لیے فوزوفلاح کے مدعی ہو درآنحالیکہ ہمارے حالات تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے حالات سے ہزار درجہ بہتر ہیں۔ اگر ہم خدا کے مبغوض و مقہور ہیں اور تم خدا کے محبوب و منظور نظر ہو تو ہم کو یہ نعمتیں کیوں ملی ہوئیں ہیں اور تم ان سے کیوں محروم ہو ؟ یہ صورت حال تو صاف طاہر کرتی ہے کہ تم ایک خبطی آدمی ہو اور خبطیوں کی سی باتیں کر رہے ہو اور یہ بھی تمہاری ایک خبط ہی ہے کہ تم مدعی ہو کہ تمہارے پاس فرشتہ آتا ہے اگر فرشتے آتے ہیں تم اس دعوے میں سچے ہو تو ان فرشتوں کو تم ہمارے پاس کیوں نہیں لاتے کہ ہم بھی ذرا دیکھیں اور سنیں کہ وہ کیسے ہیں اور کیا کہتے ہیں۔ آخر تمہیں ایسے کیا سرخاب کے پر لگے ہیں کہ وہ تمہارے پاس تو آتے ہیں اور ہمارے پاس نہیں آتے۔ لَوْ مَا تَاْتِيْنَا میں لَوْ مَا ابھارنے، اکسانے یا مطالبہ کرنے کے مفہوم میں ہے یعنی " کیوں نہیں ایسا کرتے "۔ کلام عرب اور قرآن مجید میں اس کی نظیریں موجود ہیں۔
Top