Tadabbur-e-Quran - Al-Hijr : 88
لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ
لَا تَمُدَّنَّ : ہرگز نہ بڑھائیں آپ عَيْنَيْكَ : اپنی آنکھیں اِلٰى : طرف مَا مَتَّعْنَا : جو ہم نے برتنے کو دیا بِهٖٓ : اس کو اَزْوَاجًا : کئی جوڑے مِّنْهُمْ : ان کے وَلَا تَحْزَنْ : اور نہ غم کھائیں عَلَيْهِمْ : ان پر وَاخْفِضْ : اور جھکا دیں آپ جَنَاحَكَ : اپنے بازو لِلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کے لیے
ہم نے ان کے مختلف گروہوں کو جن چیزوں سے بہرہ مند کر رکھا ہے ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھو اور نہ ان کی حالت پر غم کرو اور اپنی شفقت کے بازو اہل ایمان پر جھکائے رکھو
لا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ وَلا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ لفظ ازاواج طبقات کے معنی میں بھی آتا ہے۔ مثلاً سورة واقعہ میں ہے " وکنتم ازواجا ثلاثہ " (اور اس وقت تم تین طبقات میں تقسیم ہوگے)۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب خدا نے تمہیں قرآن کی یہ نعمت عظمی دے رکھی ہے جو تمہاری کامیابی وفتحمندی کی ضامن ہے تو تمہیں ان لوگوں کی طرف نگاہ اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے جو اپنے مال و اسباب کے غرور میں مست ہیں اور تمہاری بات سننے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ حقیقت یہاں پیش نظر رہے کہ حضرات انبیاء (علیہم السلام) کو اپنی قوم کے اغنیاء اور ارباب ثروت و جاہ کی طرف خاص طور پر دعوت کے ابتدائی دور میں، جو توجہ ہوئی ہے تو اس کا سبب نعوذ باللہ یہ نہیں تھا کہ ان نگاہوں میں ان کے مال و متاع کی کوئی طمع یا وقعت تھی بلکہ اس کا سبب محض یہ تھا کہ اگر یہ زور زر رکھنے والے لوگ ایمان لائیں گے تو یہ اپنی دنیا اور عاقبت بھی سنواریں گے اور ان کا مال اور ان کا اثر دین کی تقویت اور ان کے زیردستوں کے لیے دین کی راہ کھولنے کا بھی ذریعہ ہوگا۔ اسی جذبہ خیر سے آنحضرت ﷺ کو بھی دعوت کے ابتدائی دور میں قریش کے اکابر و اعیان کی طرف خاص توجہ رہی لیکن جب انہوں نے آنکھیں نہیں کھولیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت فرمائی کہ آپ ان سے صرف نظر کرکے اپنی ساری توجہ اور شفقت ان لوگوں پر مبذول فرمائیں جو اگرچہ دولت دنیا نہیں رکھتے لیکن قرآن عظیم پر ایمان کی نعمت ان کو حاصل ہے۔ وَلا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو ان اغنیاء کی ایمان سے محرومی پر بڑا غم تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے بھی روک دیا کہ ان لوگوں کی اس محرومی پر غم نہ کھاؤ۔ یہ شامت زدہ لوگ اسی کے سزاوار تھے کہ یہ قرآن پر ایمان کی نعمت سے محروم ہی رہیں۔ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ ، میں ایک لطیف اشارہ اس بات کی طرف بھی ہے کہ اب ان شامت زدہ لوگوں پر قہر الٰہی نازل ہونے میں دیر نہیں تو جس طرح پرندہ کوئی خطرہ محسوس کرتے ہی اپنے بچوں کو اپنے پروں سے نیچے چھپا لیتا ہے اسی طرح تم ان مومنین کو برابر اپنے دامن شفقت کے نیچے چھپائے رکھو۔
Top