Tadabbur-e-Quran - An-Nahl : 101
وَ اِذَا بَدَّلْنَاۤ اٰیَةً مَّكَانَ اٰیَةٍ١ۙ وَّ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوْۤا اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُفْتَرٍ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب بَدَّلْنَآ : ہم بدلتے ہیں اٰيَةً : کوئی حکم مَّكَانَ : جگہ اٰيَةٍ : دوسرا حکم وَّاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا : اس کو جو يُنَزِّلُ : وہ نازل کرتا ہے قَالُوْٓا : وہ کہتے ہیں اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنْتَ : تو مُفْتَرٍ : تم گھڑ لیتے ہو بَلْ : بلکہ اَكْثَرُهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : علم نہیں رکھتے
اور جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت بھیجتے ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ اتارتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ تم تو اپنے جی سے گھڑ لینے والے ہو۔ بلکہ ان میں کے اکثر عل نہیں رکھتے ہیں
وَاِذَا بَدَّلْنَآ اٰيَةً مَّكَانَ اٰيَةٍ ۙ وَّاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مُفْتَرٍ ۭ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۔ آیت سے مراد کوئی حکم شرعی ہے۔ یہ ایک مثال ہے ان اعتراضات کی جو یہود لوگوں کے دلوں میں وسوسہ اندازی کے لیے قرآن کے خلاف اٹھاتے تھے۔ فرمایا کہ جب ہم ایک حکم کو دوسرے حکم سے بدلتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ تم تو نرے مفتری ہو۔ اپنے جی سے ایک بات گھڑتے ہو اور لوگوں پر دھونس جمانے کے لیے اس کو خدا کی طرف منسوب کردیتے ہو۔ ورنہ اس کے کیا معنی کہ خدا ایک مرتبہ ایک قانون بنائے اور پھر اس قانون کو خود ہی دوسرے قانون سے بدل دے۔ یہ اشارہ ہے تحریم و تحلیل اور یوم السبت کے باب میں ان احکام کی طرف جن کا حوالہ، آگے اسی سورة کی آیت 114 تا 116 اور 124 میں آیا ہے۔ قرآن نے جب اس امت کے لیے یوم السبت کی حرمت ختم کردی اور کھانے پینے کے باب میں وہ احکام دیے جو ملت یہود یا ملت مشرکین کے بجائے ملت ابراہیم پر مبنی تھے تو یہود نے شور مچانا شروع کردیا کہ یہ دیکھو، یہ شخص ایک طرف تو ہماری شریعت کو خدائی شریعت مانتا ہے دوسری طرف اس کے احکام کو ان سے مختلف احکام سے بدلتا ہے۔ اگر یہ شخص خدا کا رسول ہوتا تو وہ خدا کے دیے ہوئے احکام کو کس طرح بدل سکتا۔ اس وجہ سے ہمارے نزدیک ٰیہ خدا کا رسول نہیں بلکہ (نعوذ باللہ) ایک مفتری ہے۔ یہ بات کہی تو یہود نے لیکن یہ بےسمجھے بوجھے قریش کے ان لیڈروں نے بھی دہرانی شروع کردی۔ جو آنحضرت ﷺ کی مخالفت میں کہی ہوئی ہر بات کو اپنی تائید سمجھتے تھے۔ وَّاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ۔ یہ قرآن نے مذکورہ بالا اعتراض کا جواب دیا ہے کہ انپی اتاری ہوئی چیزوں کی حکمت و مصلحت کو خدا ہی خوب جانتا ہے۔ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ، اکثر لوگ ان حکمتوں اور مصلحتوں کو نہیں جانتے۔ یہاں یہ بات اجمال کے ساتھ ارشاد ہوئی ہے۔ آگے کی آیات میں اس اجمال کی تفصیل آئے گی۔ ہم یہاں چند اشارات صرف اس لیے کیے دیتے ہیں کہ آگے نظم کلام کے سمجھنے میں آسانی ہو۔ قرآن کا یہ جواب دو مبادی پر مبنی ہے۔ شریعت میں تدریج کی مصلحت : اول یہ کہ خدا نے اپنی شریعت کے نازل کرنے میں ترتیب و تدریج ملحوظ رکھی ہے تاکہ ایمان لانے والوں کے قدم شریعت میں خوب جم سکیں۔ یہ ترتیب و تدریج بعض حالات میں احکام میں تبدیلی کی مقتضی ہوئی ہے جو سرتا سر اہل ایمان کی مصلحت پر مبنی ہے۔ دوسری یہ کہ اس ملت کی بنیاد ملت ابراہیم پر ہے اور ملت ابراہیم ملت یہود اور ملت مشرکین سے بالکل الگ ملت تھی۔ اس میں حرام وہی چیزیں ہیں جو ملت ابراہیم میں حرام تھیں۔ یہی چیزیں اصلاً ملت یہود میں بھی حرام تھیں لیکن بعد میں انہوں نے اپنی بدعات کے ذریعہ سے ان میں اضافے کرلیے جو اللہ نے ان کی سزا کے طور پر ان پر باقی رکھے لیکن اس ملت کی اساس چونکہ ملت ابراہیم پر ہے اس وجہ سے اس میں وہ اضافے ختم کردیے گئے۔
Top