Tadabbur-e-Quran - An-Nahl : 114
فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَیِّبًا١۪ وَّ اشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ
فَكُلُوْا : پس تم کھاؤ مِمَّا : اس سے جو رَزَقَكُمُ اللّٰهُ : تمہیں دیا اللہ نے حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : پاک وَّاشْكُرُوْا : اور شکر کرو نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو اِيَّاهُ : صرف اس کی تَعْبُدُوْنَ : تم عبادت کرتے ہو
تو اللہ نے تمہیں جو چیزیں جائز و پاکیزہ دے رکھی ہیں ان میں سے کھاؤ اور اللہ کی نعمت کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کی پرستش کرتے ہو
فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَيِّبًا ۠ وَّاشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ اہل مکہ کو اہل سبا کا انجام یاد دلا کر ان کو یاددہانی فرمائی کہ تمہیں بھی اللہ نے جو چیزیں حلال وطیب بخشی ہیں ان کو کھاؤ برتو اور اس کی نعمتوں پر اسی کا شکر ادا کرو اگر تم اس کی پرستش کرنے والے ہو یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ اہل سبا اور اہل مکہ میں بڑی مماثلت تھی اوپر اہل سبا کے باب میں جو الفاظ وارد ہوئے ہیں ان کو پڑھیے پھر حرم مکہ کی شان میں یہ الفاظ، اولم نمکن لھم حرما امنا یجبی الیہ ثمرات کل شئی رزقا من لدنا۔ قصص 57۔ پڑھیے تو دونوں کی مماثلت واضح ہوجائے گی جس طرح اہل سبا کو امن وچین کی زندگی حاصل تھی اسی طرح اہل مکہ کو بھی امن و اطمینان کی زندگی حاصل تھی خانہ کعبہ کا مرکز ہونے کی وجہ سے یہ شہر امن وامان کا شہر تھا کسی کی مجال نہ تھی کہ بلدامین پر حملہ کرنے کی جرات کرسکے تمام ملک سے تجارتی قافلے یہاں بےخوف وخطر آت اور اس شہر کے باشندوں کی خوش حالی کا ذریعہ بنتے خود اہل مکہ کے تجارتی قافلے ہر موسم میں بےخوف وخطر دور دور کے سفر کرتے لیکن ان کو نقصان پہنچانا تو الگ رہا راستہ کے بدوی قبائل ان کی حفاظت کے لیے بدرقہ فراہم کرتے یہ بیت اللہ کے خادم اور متولی ہیں ان نعمتوں کا حق یہی تھا کہ یہ ان سے فائدہ اٹھاتے اور اللہ کے شکر گزرا رہتے لیکن انہوں نے شرک میں مبتلا ہو کر اللہ کے بخشے ہوئے جانوروں کی قربانی اپنے مزعوسہ شریکوں کے تھانوں اور استھانوں پردی، محض اپنے مشرکانہ اوہام کے تحت اپنے جی سے ان کو حلال و حرام ٹھہرایا اور اسی طرح اسی کفران نعمت کے جرم کے مرتکب ہوئے جس کے مرتکب ہو کر اہل سبا کیفر کردار کو پہنچے۔ ان کنتم ایاہ تعبدون۔ کے صحیح مفہوم کو سمجھنے کے لیے اس بات کو یاد رکھیے کہ مشرکین مکہ شرک کی تمام خرافات میں مبتلا ہونے کے باوجود دعوی یہی کرتے تھے کہ وہ پرستش خدا ہی کی کرتے ہیں بتوں کی پرستش کے حق میں انہوں نے یہ دلیل پیدا کردی تھی کہ ہم ان کی پرستش تو محض اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں خدا کے قریب کردیں، مانعبدھم الالیقربونا الی اللہ زلفی۔ ان کا زعم یہ تھا کہ یہ خدا کے مقرب ہیں اور چہیتے ہیں اگر یہ راضی رہیں تو خدا سے سفارش کرکے اپنے پرستاروں کو جو چاہیں دلواسکتے ہیں اسی زعم کے تحت وہ ان کو نذرانے اور چڑھاوے پیش کرتے اور ان کے نام پر جانور چھوڑ دیتے جن کو تقدس کا درجہ حاصل ہوجاتا تاکہ ان کا دودھ اور گوشت کھانا جاز ہوتا اور نہ ان پر سوری کی جاسکتی قرٓن نے ان کے اسی مغالطہ کو یہاں رفع کیا ہے کہ اگر خدا ہی کی پرستش کا دعوی ہے تو اس کی نعمتوں پر اسی کا شکر ادا کرو، اس کی بخشی ہوئی نعمتوں کو نہ دوسروں کی طرف منسوب کرو نہ ان کے لیے ان کی قربانی پیش کرو نہ ان کے نام پر ان کو حرام و حلال ٹھہراؤ۔
Top