Tadabbur-e-Quran - An-Nahl : 13
وَ مَا ذَرَاَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُخْتَلِفًا اَلْوَانُهٗ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ یَّذَّكَّرُوْنَ
وَمَا : اور جو ذَرَاَ : پیدا کیا لَكُمْ : تمہارے لیے فِي الْاَرْضِ : زمین میں مُخْتَلِفًا : مختلف اَلْوَانُهٗ : اس کے رنگ اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيَةً : البتہ نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّذَّكَّرُوْنَ : وہ سوچتے ہیں
اور زمین میں جو چیزیں تمہارے لیے گوناگوں قسموں کی پھیلائیں، بیشک اس میں بھی بڑی نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو یاد دہانی حاصل کریں
. وَمَا ذَرَاَ لَكُمْ فِي الْاَرْضِ مُخْتَلِفًا اَلْوَانُهٗ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّذَّكَّرُوْنَ۔ ہر پتہ معرفت کردگار کا دفتر ہے : یعنی زمین میں جو بیشمار گوناگوں و بوقلموں انواع و اقسام کی چیزیں تمہارے فائدے کے لیے پھیلا رکھی ہیں ان کو بھی دیکھو اور ان پر غور کرو۔ ان کے اندر بھی یاد دہانی حاصل کرنے والوں کے لیے بہت بڑی نشانی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا بالکل سپاٹ، چٹیل، یک رنگ بلکہ بالکل بےرنگ بھی ہوسکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ اس کا گوشہ گوشہ عجائب، قدرت سے معمور ہے۔ ایسا کیوں ہے ؟ یہ اس لیے ہے کہ اس کے خالق نے یہ چاہا کہ انسان اس کے جس گوشہ پر بھی نظر ڈالے وہیں اس کو اس کے خالق کی قدرت و حکمت اور رحمت و ربوبیت کی کوئی نہ کوئی نشانی مل جائے اور وہ مصنوع سے صانع اور اس کی صفات کا درس حاصل کرسکے۔ گویا کہ پتہ پتہ معرفت کردگار کا دفتر ہے۔ ہر قدم پر صحیح نشان منزل کی طرف رہنمائی کرنے والی کوئی نہ کوئی نشانی موجود ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ یاد دہانی کرنے والی چیزوں سے انسان یاد دہانی حاصل کرے، آنکھیں بند کرکے نہ چلے بلکہ ایک ایک چیز کو دیکھے اور اس سے جو سبق حاصل ہوتے ہیں ان کو محفوظ رکھے۔ انسان کو دعوت تفکر و تذکر : یہاں یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ انسان کی جو صلاحیتیں اس دنیا میں اس کی صحیح رہنمائی کرتی ہیں ان کو بالترتیب یتفکرون، یعقلون، اور یذکرون سے تعبیر فرمایا ہے۔ یہ اعلی سے ادنی کی طرف نزول ہے۔ انسان کی سب سے اعلی صفت تو یہ ہے کہ وہ اس کائنات میں تفکر کرے، اسی تفکر سے اس کو اس کثرت کے اندر وحدت کی طرف رہنمائی اور اس کائنات کی اصل غایت کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ یہ نہ ہو تو کم از کم یہ تو ہو کہ وہ اپنی عقل سے کام لے اور اس کائنات کی ایک ایک چیز جس نشان منزل کی طرف انگلی اٹھا اٹھا کر اشارہ کر رہی ہے اس کی اس یاد دہانی سے فائدہ اٹھائے اور اندھے بھین سے کی طرح نہ چلے۔ انہی صفات کا حوالہ اگے اسی سورة کی آیات 65 67 67 میں بالترتیب یسمعون، یعقلون اور یتفکرون کے الفاظ سے آیا ہے۔ یہ ادنی سے اعلیٰ کی طرف صعود ہے یعنی ایک معقول آدمی کے اندر کم از کم جو بات ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ وہ معقول بات کو سنے اور اس کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اگر یہ نہ ہو تو وہ سرے سے آدمی ہی نہیں ہے بلکہ نرا دو ٹانگوں پر چلنے والا ایک جانور ہے۔ اور اس کا اعلی وصف یہ ہے کہ وہ اس کائنات میں تفکر کرے اس لیے کہ اسی تفکر سے علم صحیح اور معرفت حقیقی کے دروازے کھلتے ہیں اور قرآن درحقیقت انسان کی اسی صلاحیت کو بیدار کرنا چاہتا ہے۔
Top