Tadabbur-e-Quran - An-Nahl : 3
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ١ؕ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
خَلَقَ : اس نے پیدا کیے السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین بِالْحَقِّ : حق (حکمت) کے ساتھ تَعٰلٰى : برتر عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک کرتے ہیں
اس نے آسمانوں اور زمین کو غایت کے ساتھ پیدا کیا، وہ برتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ اس کا شریک گردانتے ہیں
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ۭ تَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۔ کارخانہ کائنات کے بالحق ہونے کا لازمی تقاضا : لفظ " حق " کی تشریح سورة حجر کی آیت 85 کے تحت گزر چکی ہے۔ اس کے معنی غایت اور مقصد کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ خدا نے یہ دنیا بےغایت و بےمقصد نہیں بنائی ہے۔ یہ کسی کھلنڈرے کا کھیل اور بازیچۂ اطفال نہیں ہے بلکہ اس کی ایک ایک چیز کے اندر جو قدرت و حکمت نمایاں ہے وہ شاہد ہے کہ اس کا خلق حکیم و قدیر ہے۔ ایک حکیم و قدیر خالق کی شان سے یہ بات بعید ہے کہ وہ کوئی عبث، باطل اور بےمقصد کام کرے۔ اس کے بامقصد اور باغایت ہونے کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ وہ ایک ایسا دن ضرور لائے جس دن سب اس کی طرف لوٹیں اور اپنے اعمال کی جزا یا سزا پائیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو یہ تمام کارخانہ بالکل عبث اور بےغایت ایک کھیل بن کے رہ جاتا ہے۔ اسی حقیقت کو سورة مومنون کی آیت 115 میں یوں واضح فرمایا ہے " افحسبتم انما خلقناکم عبثا وانکم الینا لاترجعون (کیا تم نے یہ گمان کر رکھا ہم کہ ہم نے تم کو عبث پیدا کی ہے اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤگے)۔ تَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۔ یہ اسی اوپر والے مضمون کی ایک دوسرے پہلو سے تاکید ہے۔ کفار و مشرکین اول تو قیامت کے قائل نہ تھے، پھر ان کا اصل تعلق ان کے ان فرضی معبودوں اور شرکاء و شفعاء سے رہ گیا تھا جن کی وہ پوجا کرتے تھے۔ ان کا گمان یہ تھا کہ وہ ان کی طرف سے خدا سے نمٹنے کے لیے کافی ہیں۔ ظاہر ہے یہ عقیدہ اس کارخانہ کائنات کے بالحق ہونے کی صریح نفی ہے۔ اس وجہ سے یہ حقیقت بھی واضح کردی گئی کہ یہ لوگ اپنے جن معبودوں سے لو لگائے بیٹھے ہیں ان میں سے کوئی ان کے کام آنے والا نہیں ہے۔ خدا کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں ہے۔ وہ ان تمام شریکوں سے پاک اور منزہ ہے۔ وہ جن اعلی صفات سے متصف ہے ان کے ساتھ ان شریکوں کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔
Top