Tadabbur-e-Quran - An-Nahl : 53
وَ مَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَیْهِ تَجْئَرُوْنَۚ
وَمَا : اور جو بِكُمْ : تمہارے پاس مِّنْ نِّعْمَةٍ : کوئی نعمت فَمِنَ اللّٰهِ : اللہ کی طرف سے ثُمَّ : پھر اِذَا : جب مَسَّكُمُ : تمہیں پہنچتی ہے الضُّرُّ : تکلیف فَاِلَيْهِ : تو اس کی طرف تَجْئَرُوْنَ : تم روتے (چلاتے) ہو
اور تمہارے پاس جو نعمت بھی ہے وہ اللہ ہی کی طرف سے ہے، پھر جب تمہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اسی سے تم فریاد کرتے ہو
وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَيْهِ تَجْــــَٔــرُوْنَ۔ جار جاوا و جوارا کے معنی تضرع اور فریاد کرنے کے ہیں۔ توحید کی انفسی دلیل : یہ توحید کی انفسی دلیل بیان ہوئی ہے کہ جتنی نعمتیں بھی تمہیں حاصل ہیں سب اللہ ہی کی بخشی ہوئی ہیں اور جب کبھی تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو تم خدا ہی کو پکارتے ہو۔ یہ دلیل ہے اس بات کی کہ اصل فطرت کے اندر صرف ایک ہی خدا کا شعو ہے، یہ دوسرے دیوی دیوتا جو تم نے بنا رکھے ہیں اصل فطرت کے اندر ان کی کوئی جگہ نہیں چناچہ جب کسی حقیقی پریشانی کا وقت آتا ہے تو یہ سارے بناوٹی دیوی دیوتا غائب ہوجاتے ہیں، صرف ایک ہی خدا باقی رہ جاتا ہے جس کا اعتقاد اصل فطرت کے اندر ودیعت ہے۔
Top