Tadabbur-e-Quran - An-Nahl : 84
وَ یَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا ثُمَّ لَا یُؤْذَنُ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ لَا هُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن نَبْعَثُ : ہم اٹھائیں گے مِنْ : سے كُلِّ : ہر اُمَّةٍ : امت شَهِيْدًا : ایک گواہ ثُمَّ : پھر لَا يُؤْذَنُ : نہ اجازت دی جائے گی لِلَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا (کافر) وَ : اور لَا هُمْ : نہ وہ يُسْتَعْتَبُوْنَ : عذر قبول کیے جائیں گے
اور یاد کرو اس دن کو جس دن ہم ہر امت میں سے ایک گواہ اٹھائیں گے، پھر جن لوگوں نے کفر کیا ہوگا نہ ان کو عذر پیش کرنے کی اجازت دی جائے گی اور نہ ان سے یہ فرمائش ہوگی کہ وہ خدا کو راضی کریں
آگے کا مضمون۔ آیات 84 تا 90:۔ رسول اتمام حجت کا آخری ذریعہ ہے : اوپر رسولوں کی ذمہ داری کی آخری حد واضح کردی گئی ہے۔ آگے اسی تعلق سے یہ حقیقت واضح فرمائی گئی ہے کہ رسول کے ذریعے سے اتمام حجت کے بعد کسی قوم کے لیے گمراہی پر قائم رہنے کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے گا جس کو وہ خدا کے سامنے پیش کرسکے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر امت میں حق کی تبلیغ اور اتمام حجت کے لیے اپنے رسول بھیجے۔ وہ ان سے قیامت کے دن گواہی دلوادے گا کہ انہوں نے اللہ کا پیغام لوگوں کو پہنچا دیا۔ یہی حیثیت نبی ﷺ کی اس امت کے لوگوں کے لیے ہے۔ اسی مقصد کے لیے اللہ نے آپ پر یہ کتاب اتاری ہے۔ اس کتاب کا جو بنیادی پیغام ہے آخر میں اس کا اجمالی حوالہ ہے۔ آیات کی تلاوت کیجیے۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيْدًا ثُمَّ لَا يُؤْذَنُ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُوْنَ امۃ سے یہاں مراد امت دعوت ہے جس کی طرف کسی رسول کی بعثت ہوتی ہے، شہید سے مراد رسول ہے اس لیے کہ وہی دنیا میں اپنی قوم کے لوگوں پر حق کی گواہی دیتا ہے اور وہی قیامت کے دن گواہ بنا کر کھڑا کیا جائے گا اور گواہی دے گا کہ اس نے اللہ کا دین لوگوں کو پہنچا دیا تھا۔ ثُمَّ لَا يُؤْذَنُ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا کے بعد کلام میں حذف ہے جس پر قرینہ دلیل ہے۔ یعنی قیامت کے روز رسولوں کی گواہی کے بعد کافروں کو یہ اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ عذر و معذرت کے لیے زبانیں کھولیں۔ استعتاب کے معنی ہیں کسی کا کسی سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ اس کی وجہ شکایت کو رفع کرکے اس کو راضی کرتے۔ یہاں اس سے یہ مراد ہے کہ قیامت میں کافروں اور نافرمانوں سے یہ فرمائش نہیں کی جائے گی کہ وہ خدا کو راضی کرنے کی کوشش کریں اس لیے کہ اس وقت سعی و عمل کے دروازے بند ہوچکیں گے اور جزا و سزا کا مرحلہ شروع ہوجائے گا۔ مابعد الموت من مستعتب ولا بعد الدنیا دار الا الجنۃ او النار۔ کفار کو تنبیہ : یہ کفار ہے کہ اپنی سرکشی میں بہت آگے نہ بڑھتے جاؤ اس دن کو بھی یاد رکھو جس دن ہر امت میں سے اس کی طرف بھیجے ہوئے رسول کو ہم گواہ بنا کر اٹھائیں گے اور اسی سے گواہی دلوادیں گے کہ اللہ کا پیغام اس نے پورا پورا لوگوں کو پہنچا دیا تھا۔ پھر نہ کسی کو عذر و عمذرت پیش کرنے کے لیے زبان کھولنے کی اجازت دی جائے گی اور نہ کسی سے یہ کہا جائے گا کہ وہ اللہ کے غضب کو دور اور اس کو راضی کرنے کی کوشش کرے اس لیے کہ رسول کے اتمام حجت کے بعد۔ نہ کسی عذر و معذرت کا موقع باقی رہتا اور نہ قیامت قیامت کے بعد خدا کو راضی کرنے کے لیے کسی سعی کا۔
Top