Tadabbur-e-Quran - An-Nahl : 9
وَ عَلَى اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَ مِنْهَا جَآئِرٌ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِیْنَ۠   ۧ
وَ : اور عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر قَصْدُ : سیدھی السَّبِيْلِ : راہ وَمِنْهَا : اور اس سے جَآئِرٌ : ٹیڑھی وَلَوْ شَآءَ : اور اگر وہ چاہے لَهَدٰىكُمْ : تو وہ تمہیں ہدایت دیتا اَجْمَعِيْنَ : سب
اور اللہ تک سیدھی راہ پہنچاتی ہے اور بعض راہیں کج ہیں اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت پر کردیتا
وَعَلَي اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِيْلِ وَمِنْهَا جَاۗىِٕرٌ ۭ وَلَوْ شَاۗءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ۔ " قصد " کے معنی سیدھے اور مستقیم کے ہیں۔ طریق قصد، سیدھا راستہ، قصد السبیل، میں صفت اپنے موصوف کی طرف مضاف ہوگئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بندے کو خدا تک توحید کی سیدھی راہ پہنچاتی ہے۔ اس میں کج پیچ اور پگ ڈنڈیاں نہیں ہیں۔ خدا نے اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان وسائط کو حائل نہیں کیا ہے۔ اس نے اپنے تک پہنچنے کے لیے سیدھی راہ کھولی ہے، بندہ اس کو اختیار کرلے تو یہ سیدھے خدا تک پہنچا دیتی ہے۔ اسی حقیقت کو سورة حجر کی آیت 41 میں یوں واضح فرمایا گیا ہے۔ ھذا صراط علی مستقیم (یہ سیدھی راہ (توحید) سیدھے مجھ تک پہنچاتی ہے)۔ یہی مضمون سورة ہود آیت 65 میں یوں بیان ہوا ہے۔ ان ربی علی صراط مستقیم (بےشک میرا رب ایک سیدھے راستہ پر ہے)۔ وَمِنْهَا جَاىِٕرٌ۔ یعنی خدا تک تو توحید کی سیدھی راہ پہنچاتی ہے لیکن لوگوں نے اپنی شامت سے اس سیدھی راہ سے شرک کے کج پیچ کے راستے نکال لیے ہیں جن پر پڑ کے وہ اس طرح کھو جاتے ہیں کہ پھر خدا سے وہ دور سے دور تر ہی ہوتے جاتے ہیں ان کے لیے اصل شاہراہ کی طرف لوٹنا نہایت دشوار ہوجاتا ہے۔ وَلَوْ شَاءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ۔ یعنی اگر خدا چاہتا تو سب کو ہدایت کے راستہ ہی پر ڈال دیتا لیکن اس معامللے میں اس نے جبر کو پسند نہیں فرمایا ہے بلکہ لوگوں کو اختیار دیا ہے کہ وہ اپنی عقل وتمیز سے کام لیں اور جس راہ کو بھی اختیار کریں اپنی ذمہ داری پر اختیار کریں۔ اگر وہ توحید کی راہ اختیار کریں گے تو منزل تک پہنچیں گے اور اگر اس سے انحراف کریں گے تو اس کا انجام خود دیکھیں گے۔ اسی سورة میں آگے ارشاد ہوا ہے۔ ان تحرص علی ھداہم فان اللہ لایہدی من یضل وما لہم من ناصرین۔ یعنی جن پر خدا کا قانون ضلالت نافذ ہوجاتا ہے، پھر ان کو ہدایت نصیب نہیں ہوا کرتی تو ایسوں کی ہدایت کے درپے ہونے کی ضرورت نہیں۔
Top