بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tadabbur-e-Quran - Al-Israa : 1
سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
سُبْحٰنَ : پاک الَّذِيْٓ : وہ جو اَسْرٰى : لے گیا بِعَبْدِهٖ : اپنے بندہ کو لَيْلًا : راتوں رات مِّنَ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام اِلَى : تک الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا : مسجد اقصا الَّذِيْ : جس کو بٰرَكْنَا : برکت دی ہم نے حَوْلَهٗ : اس کے ارد گرد لِنُرِيَهٗ : تاکہ دکھا دیں ہم اس کو مِنْ اٰيٰتِنَا : اپنی نشانیاں اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْبَصِيْرُ : دیکھنے والا
پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو لے گئی ایک شب مسجد حرام سے اس دور والی مسجد تک جس کے ارد گرد کو ہم نے برکت بخشی تاکہ ہم اس کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بیشک سمیع وبصیر وہی ہے
سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا ۭ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ۔ سُبْحٰنَ تنزیہہ کا کلمہ ہے : سُبْحٰنَ ، جیسا کہ متعدد مواقع میں تصریح ہوچکی ہے، تنزیہہ کا کلمہ ہے۔ یعنی اللہ کی ذات ہر نقص و عیب سے پاک و منزہ ہے۔ اس کلمہ سے کلام کا آغاز اس موقع پر کیا جاتا ہے جہاں مقصود خدا کے باب میں کسی سوئے ظن یا غلط فہمی کو رفع کرنا ہو۔ یہاں واقعہ معراج کی تمہید اس لفظ سے اس لیے اٹھائی ہے کہ یہ واقعہ بھی خدا کے باب میں یہود اور مشرکین کے ایک بہت بڑے سوء ظن کو رفع کرنے والا تھا۔ یہ دونوں ہی گروہ خدا کے دین کے دو سب سے بڑے مرکزوں پر قابض تھے اور ان کو انہوں نے، ان کے بنیادی مقصد کے بالکل خلاف نہ صرف شرک و بت پرستی کا اڈا بلکہ جیسا کہ سیدنا مسیح نے فرمایا ہے کہ، تم نے میرے باپ کے گھر کو چوروں کا بھٹ بنا ڈالا ہے، ان کو انہوں نے چوروں اور خائنوں کا بھٹ ہی بنا ڈالا تھا۔ یہ دونوں ہی مقدس گھر بالکل خائنوں اور بےایمانوں کے تصرف میں تھے 1؎۔ اور یہ ان میں اس طرح اپنی من مانی کر رہے تھے گویا ان گھروں کا اصل مالک کانوں تیل ڈال کر اور آنکھوں پر پٹی باندھے سو رہا ہے اور اب کبھی وہ اس کی خبر لینے کے لیے بیدار ہی نہیں ہوگا۔ معراج کا واقعہ، جیسا کہ ہم نے پیچھے اشارہ کیا ہے۔ اس بات کی تمہید تھا، کہ اب ان گھروں کی امانت اس کے سپرد ہونے والی ہے جو ان کے اصلی مقصد تعمیر کو پورا کرے گا اس وجہ سے اس کے بیان کا آغاز سُبْحٰنَ کے لفظ سے فرمایا اور آیت کے آخر میں اپنی صفات اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ کا حوالہ دے کر یہ واضح فرما دیا کہ جو نادان خدا کو نعوذ باللہ اندھا اور بہر سمجھے بیٹھے تھے اب وہ اپنے کان اور اپنی آنکھیں کھولیں۔ اب ان کی عدالت کا وقت آگیا ہے۔ حقیقی سمیع وبصیر خدا ہی ہے اور اب وہ اپنے کامل علم و خبر کی روشنی میں لوگوں کا انصاف کرے گا۔ " عبد " سے مراد آنحضرت ﷺ : اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا، اسراء کے معنی شب میں سفر کرنے کے ہیں اور جب " ب " کے ذریعے سے یہ متعدی ہوجائے تو اس کے معنی شب میں کسی کو کہیں لے جانے کے ہیں۔ اگرچہ اس کے مفہوم میں شب میں نکلنے یا لے جانے کا مفہوم خود داخل ہے لیکن عام استعمال میں یہ لفظ کبھی کبھی اس مفہوم سے مجرد ہوجایا کرتا ہے اس وجہ سے " لَيْلًا " کی قید سے اس بات کو موکد کرنا مقصود ہے کہ یہ واقعہ شب ہی میں پیش آیا۔ بِعَبْدِهٖ میں عبد سے مراد آنحضرت ﷺ ہیں۔ اس موقع پر حضور کے لیے اس لفظ کا استعمال اللہ تعالیٰ کے ساتھ حضور کے غایت درجہ اختصاص، آپ کے ساتھ اللہ کی غایت درجہ محبت اور آپ کے کمال درجہ عبدیت کی دلیل ہے۔ گویا آپ کی ذات کسی اور تعریف و تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ لفظ عبد نے خود انگلی اٹھا کر ساری خدائی میں سے اس کو ممیز کردیا جو اس لفظ کا حقیقی محمل و مصداق ہے۔ مسجد حرام اور مسجد اقصی سے مراد : " مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ "۔ مسجد حرام سے تو ظاہر ہے کہ خانہ کعبہ مراد ہے۔ رہی دوسری مسجد تو اس کا تعارف دو صفتوں سے کرایا ہے۔ ایک " اقصی " دوسری الَّذِيْ بٰرَكْنَا حولہ۔ اقصی کے معنی ہیں دور والی۔ یہ مسجد، حرم مکہ کے باشندوں سے، جو اس کلام کے مخاطب اول ہیں کم و بیش 40 دن کی مسافت پر یروشلم میں تھی اس وجہ سے اس کو اقصی کی صفت سے موصوف فرمایا تاکہ ذہن آسانی سے اس کی طرف منتقل ہوسکے۔ پھر " الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ " کی صفت اس کے ساتھ لگا کر اس سرزمین کی طرف بھی اشارہ کردیا جس میں یہ مسجد واقع ہے۔ یہ اس سرزمین کی روحانی اور مادی دونوں قسم کی زرخیزیں کی تعبیر ہے۔ روحانی برکات کے اعتبار سے اس کا جو درجہ تھا اس کا اندازہ کرنے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جتنے انبیاء کا مولد و مدفن ہونے کا شرف اس سرزمین کو حاصل ہوا ؟ کسی دوسرے علاقے کو حاصل نہیں ہوا۔ 1؎۔ مسجد اقصی کی حالت کا اندازہ کرنے کے لیے تو حضرت مسیح کے الفاظ ہی کافی ہیں۔ اگر حرم ابراہیمی کی حالت کا اندازہ کرنا ہو۔ تو فراہی کی تفسیر سورة لہب پر ایک نظر ڈال لیجیے کہ ابولہب نے اس میں کیا اودھم مچا رکھی تھی۔ معراج کے سفر کی غایت : لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا، یہ اس سفر کی غایت بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اپنے بندے کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائے۔ اسلوب بیان کی یہ بلاغت ملحوظ رہے کہ اوپر کی بات غائب کے صیغہ سے بیان ہوئی ہے جو تفخیم شان پر دلیل ہے اور یہاں صیغہ متکلم کا آگیا ہے جو التفات خاص کو ظاہر کر رہا ہے۔ فرمایا کہ ہم نے یہ سفر اس لیے کرایا تاکہ اپنے بندے کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ یہ نشانیاں کیا تھیں اس کا کوئی ذکر یہاں نہیں ہے لیکن قرینہ دلیل ہے کہ اس سے مراد وہ وہ آثار و مشاہد اور وہ انوار و برکات ہیں جن سے یہ دونوں ہی گھر معمور تھے۔ مقصود ان کے دکھانے سے ظاہر ہے کہ یہی ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی یہ مرضی واضح ہوجائے کہ اب یہ ساری امانت ناقدروں اور بدعہدوں سے چھین کر آپ کے حوالے کی جانے والی ہے۔ گویا دعوت کے اس انتہائی مشکل دور میں آپ کو اللہ کی مدد و نصرت کی جو بشارت دی جا رہی تھی معراج کے اس سفر نے اس پر ایک مزید مہر تصدیق ثبت کردی اور جو کچھ ہونے والا تھا وہ آپ کو دکھا بھی دیا گیا۔ رہا یہ سوال کہ یہ جو کچھ آپ کو دکھایا گیا رویا میں دکھایا گیا یا بیداری میں تو اس سوال کا جواب اسی سورة میں آگے قرآن نے خود دے دیا ہے۔ فرمایا ہے : " وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلا فِتْنَةً لِلنَّاسِ : اور ہم نے اس رویا کو جو ہم نے تمہیں دکھائی لوگوں کے لیے فتنہ ہی بنا دی " (اسراء :60)۔ ظاہر ہے یہاں جس رویا کی طرف اشارہ ہے اس سے اس رویا کے سوا کوئی اور رویا مراد لینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے جس کا ذکر آیت زیر بحث میں " لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا " کے الفاظ سے ہوا ہے۔ لفظ " اراءت " قرآن میں متعدد مقامات میں، رویا میں دکھانے کے لیے آیا بھی ہے اور مفسرین نے اس سے یہی رویا مراد بھی لی ہے۔ اس وجہ سے اس کا رویا ہونا تو اپنی جگہ پر واضح بھی ہے اور مسلم بھی لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ " رویا " کو خواب کے معنی میں لینا کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ خواب تو خواب پریشان بھی ہوتے ہیں لیکن حضرات انبیاء (علیہم السلام) کو جو رویا دکھائی جاتی ہے وہ رویائے صادقہ ہوتی ہے اس کے متعدد امتیازی پہلو ہیں جو ذہن میں رکھنے کے ہیں۔ رویائے صادقہ کے امتیازی پہلو : پہلی چیز تو یہ ہے کہ رویائے صادقہ وحی الٰہی کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور رسولوں پر جس طرح فرشتے کے ذریعے سے کلام کی صورت میں اپنی وحی نازل فرماتا ہے اسی طرح کبھی رویا کی صورت میں بھی ان کی رہنمائی فرماتا ہے۔ دوسری چیز یہ ہے کہ یہ رویا نہایت واضح، غیر مبہم اور روشن صورت میں " کفلق الصبح " ہوتی ہے جس پر نبی کو پورا شرح صدر اور اطمینان قلب ہوتا ہے۔ اگر اس میں کوئی چیز تمثیلی رنگ میں بھی ہوتی ہے تو اس کی تعبیر بھی اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر واضح فرما دیتا ہے۔ تیسری چیز یہ ہے کہ جہاں واقعات و حقائق کا مشاہدہ کرانا مقصود ہو وہاں یہی ذریعہ نبی کے لیے زیادہ اطمینان بخش ہوتا ہے اس لیے کہ اس طرح واقعات کی پوری تفصیل مشاہدہ میں آجاتی ہے اور وہ معانی و حقائق بھی ممثل ہو کر سامنے آجاتے ہیں جو الفاظ کی گرفت میں مشکل ہی سے آتے ہیں۔ چوتھی چیز یہ ہے کہ رویا کا مشاہدہ چشم سر کے مشاہدہ سے زیادہ قطعی، زیادہ وسیع اور اس سے ہزارہا درجہ عمیق اور دور رس ہوتا ہے۔ آنکھ کو مغالطہ پیش آسکتا ہے لیکن رویائے صادقہ مغالطہ سے پاک ہوتی ہے، آنکھ ایک محدود دائرہ ہی میں دیکھ سکتی ہے لیکن رویا بیک وقت نہایت وسیع دائرہ پر محیط ہوجاتی ہے، آنکھ حقائق و معانی کے مشاہدے سے قاصر ہے، اس کی رسائی مرئیات ہی تک محدود ہے۔ لیکن رویا معانی و حقائق اور انوار و تجلیات کو بھی اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ حضرت موسیٰ نے تجلی الٰہی اپنی آنکھوں سے دیکھنی چاہی لیکن وہ اس کی تاب نہ لاسکے۔ برعکس اس کے ہمارے نبی کریم ﷺ کو شب معراج میں جو مشاہدے کرائے گئے وہ سب آپ نے کیے اور کہیں بھی آپ کی نگاہیں خیرہ نہیں ہوئیں۔ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ کا موقع و محل اوپر واضح کیا جا چکا ہے۔ اس کے اندر حصر کا پہلو ہے۔ وہ اس حقیقت کے اظہار کے لیے ہے کہ حقیقی سمیع وبصیر خدا ہی ہے۔ اس کے سمع و بصر سے کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے اگر دوسروں کو اس میں سے کوئی حصہ ملا ہے تو وہ خا ہی کا عطا کردہ اور نہایت محدود ہے۔ مقصود ان صفات کا حوالہ دینے سے، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، مشرکین قریش اور بنی اسرائیل دونوں کو متنبہ کرتا ہے کہ خدا کو اپنی کرتوتوں سے بیخبر نہ سمجھو، وہ ہر چیز کو دیکھ اور سن رہا ہے۔
Top