Tadabbur-e-Quran - Al-Israa : 100
قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَآئِنَ رَحْمَةِ رَبِّیْۤ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْیَةَ الْاِنْفَاقِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا۠   ۧ
قُلْ : آپ کہ دیں لَّوْ : اگر اَنْتُمْ : تم تَمْلِكُوْنَ : مالک ہوتے خَزَآئِنَ : خزانے رَحْمَةِ : رحمت رَبِّيْٓ : میرا رب اِذًا : جب لَّاَمْسَكْتُمْ : تم ضرور بند رکھتے خَشْيَةَ : ڈر سے الْاِنْفَاقِ : خرچ ہوجانا وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان قَتُوْرًا : تنگ دل
کہہ دو کہ اگر میرے رب کے فضل کے خزانوں کے مالک تم ہوتے تو اس وقت تم خرچ ہوجانے کے اندیشے سے ہاتھ روک لیتے اور انسان بڑا ہی تنگ دل ہے
کفار کی متکبرانہ ذہنیت پر ضرب : قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَائِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذًا لأمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الإنْفَاقِ وَكَانَ الإنْسَانُ قَتُورًا۔ ہم اوپر عرض کرچکے ہیں کہ اس تمام رد و انکار میں قریش کے لیڈروں کی اس متکبرانہ ذہنیت کو بھی بڑا دخل تھا کہ جب دنیا کی تمام نعمتیں ہمیں ملی ہیں تو خدا اگر نبوت و رسالت کے منصب پر کسی کو سرفراز کرنے والا ہوتا تو ہم ہی میں سے کسی کو سرفراز کرتا، آخر یہ منصب جلیل ہم سادات کو چھوڑ کر اس غریب آدمی کے حوالہ کیوں کردیتا۔ ان کی اسی متکبرانہ ذہنیت کو سامنے رکھ کر پیغمبر ﷺ کو یہ ہدایت ہوئی کہ ان سے کہہ دیں کہ اگر میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک تم ہوتے تب تو بلاشبہ تم اس کے تنہا اجارہ دار بن بیٹھے اور اپنے سوا اس میں سے کسی کو بھی اس ڈر سے کچھ نہ دیتے کہ مبادا یہ ختم ہوجائے لیکن اپنے فضل و رحمت کے خزانوں کا مالک میرا رب خود ہی ہے۔ اس نے جن خزف ریزوں کا اہل تم کو پایا وہ تمہارے حوالے کیے اور جس فضل عظیم کے لیے میرا انتخاب فرمایا، تمہارے اور بنی اسرائیل کے علی الرغم، اس سے مجھ کو نوازا۔ وَكَانَ الإنْسَانُ قَتُورًا میں انسان کا لفظ اگرچہ عام ہے لیکن اشارہ انہی لوگوں کی طرف ہے کہ اگر یہ تنگ دل ہیں، اپنے سوا ان کے دل میں کسی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے تو آخر خدا کو انہوں نے اپنے جیسا کیوں گمان کر رکھا ہے۔
Top