Tadabbur-e-Quran - Al-Israa : 4
وَ قَضَیْنَاۤ اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ فِی الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَ لَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِیْرًا
وَقَضَيْنَآ : اور صاف کہ دیا ہم نے اِلٰى : طرف۔ کو بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل فِي الْكِتٰبِ : کتاب لَتُفْسِدُنَّ : البتہ تم فساد کروگے ضرور فِي : میں الْاَرْضِ : زمین مَرَّتَيْنِ : دو مرتبہ وَلَتَعْلُنَّ : اور تم ضرور زور پکڑوگے عُلُوًّا كَبِيْرًا : بڑا زور
اور ہم نے بنی اسرائیل کو اپنے اس فیصلہ سے کتاب میں آگاہ کردیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد مچاؤ گے اور بہت سر اٹھاؤ گے
وَقَضَيْنَآ اِلٰى بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ فِي الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْاَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيْرًا۔ عربیت کا ایک اسلوب : " قضینا " کے بعد " الی " کا صلہ عربیت کے قاعدے سے اس بات کی دلیل ہے کہ ؛ ابلغنا " یا اس کے ہم معنی کوئی لفظ محذوف ہے۔ یعنی ہم نے فیصلہ کر کے بنی اسرائیل کو اپنے اس فیصلے سے آگاہ کردیا تھا۔ یہود کے دو بڑے فسادات : " فی الکتاب " میں الکتاب کا لفظ یہاں تمام اسفار یہود پر مشتمل ہے۔ قرآن میں یہ لفظ تورات کے لیے بھی آیا ہے اور دوسرے انبیاء بنی اسرائیل کے صحیفوں کے لیے بھی۔ آیت میں یہود کے جن دو بڑے فسادات اور ان کے انجام کی خبر دی گئی ہے ان میں سے پہلے فساد اور اس کے عبرت انگیز انجام سے حضرت داود، یسعیاہ، یرمیاہ اور حزقی ایل (علیہم السلام) نے اگاہ فرمایا اور دوسرے فساد اور اس کے عواقب سے سیدنا مسیح نے ڈرایا۔ " فساد " سے مراد جیسا کہ ہم دوسرے مقامات میں واضح کرچکے ہیں، خدا کی توحید اور اس کی شریعت سے بغاوت ہے۔ اس قسم کے فسادات سے یوں تو یہود کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ چناچہ ایک فساد کی تفصیل سورة بقرہ میں تابوت کے چھن جانے کے واقعہ سے متعلق بھی گزر چکی ہے لیکن ہاں جن فسادات کا حوالہ ہے وہ ایسے فسادات ہیں کہ ان کے نتائج نے یہود کی پوری قوم کو ذلیل و پامال کر کے رکھ دیا۔ حضرت داؤد نے پہلے فساد اور اس کے انجام کی جن لفظوں میں پیشین گوئی فرمائی تھی وہ یہ ہیں : " انہوں نے (یعنی بنی اسرائیل نے) ان قوموں کو (یعنی مشرک قوموں) کو ہلاک نہ کیا، جیسا کہ خداوند نے ان کو حکم دیا تھا بلکہ ان قوموں کے ساتھ مل گئے اور ان کے سے کام سیکھ گئے اور ان کے بتوں کی پرستش کرنے لگے جو ان کے لیے پھند بن گئے بلکہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کو شیطان کے لیے قربان کیا اور معصوموں کا یعنی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کا خون بہایا۔۔۔ اس لیے خدا کا قہر اپنے لوگوں پر بھڑکا اور اسے اپنی میراث سے (یعنی بنی اسرائیل سے) نفرت ہوگئی اور اس نے انکو قوموں کے قبضے میں کردیا اور ان سے عداوت رکھنے والے ان پر حکمران بن گئے۔ (زبور باب 106۔ آیات 34۔ 41)۔ دوسرے فساد کی یشین گوئی کے سلسلہ میں سیدنا مسیح کے الفاظ یہ ہیں " میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا جو گرایا نہ جائے " (متی باب 24 آیت 3) لوقا میں ہے " اے یروشلم کی بیٹیو ! میرے لیے نہ رو و بلکہ اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے روو، کیونکہ دیکھو وہ دن آتے ہیں جب کہیں مبارک ہیں بانچھیں اور وہ پیٹ جو نہ جنے اور چھاتیاں جنہوں نے دودھ نہ پلایا۔ اس وقت وہ پہاڑوں سے کہنا شروع کریں گے کہ ہم پر گر پڑو اور ٹیلوں سے کہیں گے کہ ہمیں چھپا لو " (باب 23 آیات 28۔ 20) آیت کے آخر میں " فنعذبکم مرتین " یا اس کے ہم معنی الفاظ حذف ہیں۔ گویا پوری بات یوں ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل کو اپنے اس فیصلہ سے کتاب میں آگاہ کردیا تھا کہ تم زمین میں دو مرتبہ فساد مچاؤ گے اور بہت سر اٹھاؤ گے اور ہم دونوں مرتبہ تم کو سخت سزا دیں گے۔ چونکہ یہ بات بالکل واضح بھی تھی نیز اس کی پوری تفصیل آگے والی آیات میں آرہی تھی اس وجہ سے یہاں اس کو حذف فرما دیا۔
Top