Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - Al-Kahf : 82
وَ اَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلٰمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَةِ وَ كَانَ تَحْتَهٗ كَنْزٌ لَّهُمَا وَ كَانَ اَبُوْهُمَا صَالِحًا١ۚ فَاَرَادَ رَبُّكَ اَنْ یَّبْلُغَاۤ اَشُدَّهُمَا وَ یَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا١ۖۗ رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ١ۚ وَ مَا فَعَلْتُهٗ عَنْ اَمْرِیْ١ؕ ذٰلِكَ تَاْوِیْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْهِ صَبْرًا٢ؕ۠ ۧ
وَاَمَّا
: اور رہی
الْجِدَارُ
: دیوار
فَكَانَ
: سو وہ تھی
لِغُلٰمَيْنِ
: دو بچوں کی
يَتِيْمَيْنِ
: دو یتیم
فِي الْمَدِيْنَةِ
: شہر میں۔ کے
وَكَانَ
: اور تھا
تَحْتَهٗ
: اس کے نیچے
كَنْزٌ
: خزانہ
لَّهُمَا
: ان دونوں کے لیے
وَكَانَ
: اور تھا
اَبُوْهُمَا
: ان کا باپ
صَالِحًا
: نیک
فَاَرَادَ
: سو چاہا
رَبُّكَ
: تمہارا رب
اَنْ يَّبْلُغَآ
: کہ وہ پہنچیں
اَشُدَّهُمَا
: اپنی جوانی
وَيَسْتَخْرِجَا
: اور وہ دونوں نکالیں
كَنْزَهُمَا
: اپنا خزانہ
رَحْمَةً
: مہربانی
مِّنْ رَّبِّكَ
: سے تمہارا رب
وَمَا فَعَلْتُهٗ
: اور یہ میں نے نہیں کیا
عَنْ
: سے
اَمْرِيْ
: اپنا حکم (مرضی)
ذٰلِكَ
: یہ
تَاْوِيْلُ
: تعبیر (حقیقت)
مَا
: جو
لَمْ تَسْطِعْ
: تم نہ کرسکے
عَّلَيْهِ
: اس پر
صَبْرًا
: صبر
اور رہا دیوار کا معاملہ تو وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی۔ اس کے نیچے ان کا دفینہ تھا اور ان کا باپ ایک صالح آدمی تھا۔ تیرے رب یہ چاہا کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا دفینہ نکالیں۔ یہ تیرے رب کی عنایت سے ہوا اور یہ جو کچھ میں نے کیا اپنی رائے سے نہیں کیا۔ یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر تم صبر نہ کرسکے
وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ذَلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا۔ دیوار کی مرمت کی حکمت : اب یہ ان لئیموں کی بستی کی ایک گرتی ہوئی دیوار کی مرمت کے لیے، بلا کسی معاوضے کے، انہوں نے جو رحمت برداشت کی اس کی حکمت سمجھائی کہ یہ دیوار درحقیقت یتیموں کی تھی، ان کے باپ نے، جو ایک نیک آدمی تھا، اس کے نیچے ایک دفینہ محفوظ کیا تھا کہ اس کے بعد یہ اس کے بچوں کے کام آئے گا، اگر یہ دیوار گرجاتی تو دفینہ بستی کے لئیموں کے ہاتھ لگ جاتا اور یہ یتیم اس سے محروم ہوجاتے۔ اس وجہ سے تمہارے رب نے یہ چاہا کہ یہ دیوار ان بچوں کے جوان ہونے تک قائم رہے تاکہ وہ جوان ہو کر اپنا دفینہ خود نکالیں یہ درحقیقت تمہارے رب نے ان یتیموں پر رحم فرمایا ہے نہ کہ اس بستی کے لئیموں پر۔ مَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي، آخر میں حضرت خضر نے یہ تصریح بھی فرما دی کہ ان کاموں سے کوئی کام بھی انہوں نے اپنی رائے سے نہیں کیا بلکہ ہر کام خدا کے حکم سے کیا ہے۔ یہ مثال ہے اس بات کی کہ اس دنیا میں نابکاروں اور ناہنجاروں کو جو رعایت ملتی ہے اس سے قدرت کا اصل منشا نابکاروں کی پرورش کرنا نہیں ہوتا ہے بلکہ ان کے پردے میں قدرت اپنی ہی کسی مصلحت، خیر کی پرورش کرتی ہے اگرچہ اس کا علم ہمیں نہیں ہوتا۔ اس قسم کی رعایتوں سے اشرار تو اپنے اور صرف خدا کی حجت پوری کراتے ہیں۔ البتہ خدا ان کے ہاتھوں اہل حق کو نکھارتا ہے اور وہی اس دنیا کی خلقت کی اصل غایت ہیں۔ ممجموعہ آیات 60 تا 82 کے بعض ضمنی فوائد : حضرت موسیٰ کی اس سرگزشت کی اصل حکمت کی طرف تو ہم اوپر اشارہ کرچکے ہیں لیکن اس کے بعض ضمنی فوائد بھی قابل توجہ ہیں۔ ہم بالاختصآر ان کی طرف بھی توجہ دلادینا چاہتے ہیں۔ حکمت صرف طالب صادق کو ملتی ہے : پہلی بات یہ ہے کہ جس چیز کو حکمت کہتے ہیں ہر مدعی اس کا اہل نہیں ہوتا بلکہ یہ صرف طالب صادق کو حاصل ہوتی ہے۔ یہ حلوائی کی دکان کا حلوا نہیں ہے کہ جس کے جیب میں پیسے ہوں، اس کو خرید لے بلکہ اس کے لیے بڑا ریاض کرنا پڑتا ہے۔ یہ گھر بیٹھے بیٹھے حاصل نہیں ہوجاتی بلکہ بسا اوقات اس کی خاطر کسی خضر راہ کی تلاش میں ستو باندھ کر خشکی و تری کا سفر کرنا پڑتا ہے اور امکان اس کا بھی ہے کہ ساری عمر اس سفر ہی میں بیت جائے۔ یہ کوچۂ عشق ہے جس میں درجے اور مرتبے کے رکھ رکھاؤ سے دست بردار ہو کر سر کے بل جانا پڑتا ہے۔ اس کی خاطر اپنی انانیت قربان کرنی پڑتی ہے۔ جب تک کوئی شخص یہ قربانی دینے کے لیے تیار نہ ہو وہ اس راہ میں قدم بھی نہ رکھے۔ یہ خیر کثیر کا خزانہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے صرف ان لوگوں کے لیے خاص کیا ہے جو حکمت و معرفت کے سوا ہر خواہش و آرزو سے دست کش ہوجاتے ہیں۔ حضرت موسیٰ اور خضر کی اس سرگزشت میں یہ ساری باتیں ازخود اس طرح واضح ہیں کہ ان کے دلائل نقل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسری یہ کہ ہمارے لیے اصل رہنما شریعت ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہر حال میں ہم اسی کی پیروی کریں اور اگر کسی کی کوئی بات اس کے خلاف دیکھیں تو اس پر نکیر کریں اگرچہ اس کا ارتکاب حضرت خضر جیسے مرشد ہی سے کیوں نہ ہوا ہو۔ چناچہ دیکھ لیجیے حضرت موسیٰ باوجودیکہ خضر کے پاس اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے گئے تھے لیکن انہوں نے ان کی کسی ایسی بات پر صبر نہیں کیا جس کو انہوں نے شریعت کے خلاف پایا۔ حضرت موسیٰ مطمئن اس وقت ہوئے ہیں جب حضرت خضر نے ان کو یہ اطمینان دلایا ہے کہ جو کچھ انہوں نے کیا ہے حکم خداوندی کی تعمیل میں کیا ہے، کوئی بات بھی اپنے جی سے نہیں کی ہے اور حضرت خضر کی اس بات پر بھی ان کو اطمینان مجرد ان کے کہنے پر نہیں ہوا بلکہ وحی الٰہی کے ذریعہ سے ان کو پہلے یہ معلوم ہوچکا تھا کہ حضرت خضر خدا کے خاص بندے ہیں اور وہ جو کچھ بھی کریں گے خدا کے حکم کے مطابق کریں گے۔ اقطاب و ابدال کا تصور بےبنیاد ہے : اس وجہ سے ہم ان لوگوں کی بات بالکل بےسروپا سمجھتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہر دور میں حضرت خضر کی طرح کچ اقطاب و ابدال ہوتے ہیں جو بجائے خود حق و باطل کی کسوٹی ہوتے ہیں۔ ان کی باتیں شریعت پر نہیں پرکھی جاتیں کیونک ان کے کام براہ راست ارادۂ الٰہی کے تحت ہوتے ہیں۔ ہمارے نزدیک اقطاب و ابدال کی یہ اصطلاحات یک قلم باط ہیں۔ قرآن و حدیث میں ان کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ لیکن فرض کرلیجیے کہ کوئی شخص قطب و ابدال ہے تو ہم اس کی خلاف شریعت باتوں کو کس طرح گوارا کرسکتے ہیں ؟ حضرت موسیٰ نے حضرت خضر کی باتیں تو جیسا کہ معلوم ہوا، اس لیے گوارا فرمائیں کہ وحی کے ذریعہ سے معلوم ہوگیا تھا کہ حضرت خضر نے جو کچھ کیا ہے حکم خداوندی کی تعمیل میں کیا ہے لیکن ہمارے پاس کسی کے متعلق یہ معلوم کرنے کا کیا ذریعہ ہے کہ وہ قطب و ابدال ہے اور اس کو خدا نے اپنی شریعت کی خلاف ورزی کا اختیار دیا ہے ؟ خدا کی مرضیات و احکام معلوم کرنے کا واحد ذریعہ ہمارے پاس کتاب و سنت ہے۔ اس وجہ سے کوئی قطب و ابدال صاحب تو درکنار اگر خوجہ خضر بھی آج آجائیں اور کسی کو قتل کرکے یہ ٖصفائی پیش کریں کہ یہ انہوں نے خدا کے حکم کی تعمیل میں کیا ہے تو ہم ان کے عذر کو رد کرکے ان کے قتل کا فتوی دے دیں گے۔ اس لیے کہ ہمارے پاس " النفس بالنفس " کا حکم قرآن میں موجود ہے لیکن خوجہ خضر کے کسی قتل کا خدا کی طرف سے مجاز ہونے کا ثبوت ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔ بعض شبہات کا ازالہ : تیسری چیز اس میں اسلوبِ بیان کا ایک اشکال ہے جو غور کرنے والے کے ذہن میں خلجان پیدا کرتا ہے وہ یہ کہ ایک طرف تو حضرت خضر اپنے ان تمام کاموں کو خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں مَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي (میں نے ان میں سے کوئی کام بھی اپنی رائے سے نہیں کیا ہے)۔ لیکن دوسری طرف کشتی کے سلسلہ میں فرماتے ہیں فَأَرَدْتُ أَنْ أَعِيبَهَا (میں نے چاہا کہ اس کو عیب دار کردوں) پھر لڑکے کے باب میں ارشاد ہوتا ہے کہ " فخشینا " (پس ہم کو اندیشہ ہوا) " فاردنا " (پس ہم نے ارادہ کیا) پھر دیوار کے معاملہ میں کہتے ہیں کہ " فاراد ربک " (تیرے رب نے ارادہ کیا)۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ایک ہی بات انہوں نے مختلف اسلوبوں سے کیوں فرمائی ؟ جب انہوں نے سب کچھ خدا کے حکم کی تعمیل میں کیا تو اس بات کو ظاہر کرنے کے لیے واضح اسلوب " اراد ربک " کا تھا، پھر یہ کہنے کے کیا معنی کہ " میں نے چاہا کہ اس کو عیب دار کردوں "۔ علاوہ ازیں یہ سب کچھ کیا تو تھا تنہا حضرت خضر نے نے تو آگے جمع کا صیغہ " اردنا " کیوں استعمال کیا ؟ اگر یہ فرض کیا جائے کہ اس میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کو بھی شامل کرلیا ہے تو اس سلسلہ میں " خشینا " کا لفظ جو استعمال ہوا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے لیے بالکل ہی ناموزوں ہے۔ خدا کو کسی چیز کا اندیشہ ہونے کے کیا معنی ؟ ان شبہات کے ازالہ کے لیے مندرجہ ذیل امور پیش نظر رکھیے : ایک یہ کہ جب بندہ کا ارادہ بعینہ وہی ہے جو خدا کا ارادہ ہے تو وہ اس کو خدا کی طرف بھی منسوب کرسکتا ہے اور اپنی طرف بھی۔ اس میں اگر فرق ہوتا ہے تو محض بلاغت کے کسی تقاضے کے تحت ہوتا ہے۔ مثلاً بعض مرتبہ حسن ادب کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ایک بات کو خدا کی طرف نسبت دینے کے بجائے بندہ خود اپنی طرف اس کو منسوب کرے۔ مثلاً یہاں کشتی میں چھید کرنے کا معاملہ فی الظاہر چونکہ ذرا بدنما تھا اس وجہ سے اس کو حضرت خضر نے اپنی طرف منسوب کیا۔ اور یتیموں کے دفینہ کو محفوظ کرانے کا معاملہ چونکہ فی الظاہر بھی اچھا تاھ اس وجہ سے اس کو براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب فرمایا۔ دوسری یہ کہ اس طرح کے مواقع میں جب متکلم اپنے لیے جمع کا صیغہ استعمال کرتا ہے تو گویا وہ اس پورے زمرہ کے قول یا ارادہ کی ترجمانی کرتا ہے جس کے نمائندے یا جس کے آلہ و جارحہ کی حیثیت سے وہ کسی کام کو انجام دیتا ہے۔ حضرت خضر نے یہ سارے کام چونکہ کارکنان قضا وقدر کے ایک آلہ و جارحہ کی حیثیت سے انجام دیے۔ اس وجہ سے وہ اس کی تعبیر کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کرسکتے تھے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس طرح وہ فعل تنہا ان کا فعل نہیں رہا بلکہ کارکنان قضا و قدر کا فعل بن گیا۔ تیسری یہ کہ یہاں " خشینا " کا جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے تعلق سے نہیں استعمال ہوا ہے بلکہ اس کو حضرت خضر نے خاص اپنے اجتہاد کی تعبیر کے لیے استعمال کیا ہے۔ وحی یا فرشتہ کے ذریعہ سے ان کو جو حکم ہوا تھا وہ یہ تھا کہ فلاں لڑکے کو قتل کردو اس لیے کہ اس کے ماں باپ مومن ہیں اور یہ کافر و ناہنجار اٹھے گا۔ اس حکم سے خود حضرت خضر نے استنباط فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لڑکا اپنے ماں باپ پر تعدی کرے گا۔ اس وجہ سے اس کے قتل کا حکم ہوا ہے۔ یہ ان کا اپنا استنباط تھا۔ اس کی تصریح اصل حکم الٰہی میں نہیں تھی۔ اس وجہ سے حضرت خضر نے اس کو اپنے ایک اندیشہ کی حیثیت سے ذکر کیا اور اس کے لیے " خشینا " کا لفظ استعمال کیا۔
Top