Tadabbur-e-Quran - Al-Kahf : 83
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ١ؕ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاؕ
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنْ : سے (بابت) ذِي الْقَرْنَيْنِ : ذوالقرنین قُلْ : فرمادیں سَاَتْلُوْا : ابھی پڑھتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر۔ سامنے مِّنْهُ : اس سے۔ کا ذِكْرًا : کچھ حال
اور وہ تم سے ذوالقرنین کے بابت سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو ، میں تم کو اس کا کچھ سبق آموز احوال سناؤں گا
آگے کا مضمون۔ آیات 83 تا 98: یہود کا القا کردہ ایک سوال : آگے ذوالقرنین سے متعلق ایک سوال کا جواب آ رہا ہے۔ یہ سوال اٹھایا تو ہوگا یہود نے اور اس کے اٹھانے سے ان کا مقصد وہی رہا ہوگا جس کا ذکر ہم اصحاب کہف سے متعلق سوال کے ضمن میں کرچکے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کو پریشان کیا جائے اور دعوت حق کی راہ میں روکاٹیں ڈالی جائیں لیکن اس کو آنحضرت ﷺ کے سامنے پیش کرنے کا ذریعہ انہوں نے قریش کو بنایا ہوگا۔ یہ بات کہ یہ سوال یہود کا القا کردہ ہے اس وجہ سے قرین قیاس ہے کہ ذوالقرنین سے اصل دلچسپی یہود ہی کو تھی۔ وہ ان کو، جیسا کہ آگے تفصیل آرہی ہے، اپنا محسن بادشاہ سمجھتے تھے اور ان کے انبیاء کے صحیفوں میں ان کا ذکر بھی تھا۔ قرآن نے سوال کرنے والوں کی مفسدانہ ذہنیت کو جانتے ہوئے محض اس وجہ سے اس کا جواب دیا کہ ذوالقرنین کی زندگی ان متمردین اور سرگشتگان دنیا کے لیے بہت سبق آموز ہوسکتی ہے جن کی ذہنیت اس سورة میں شروع سے آخرت زیر بحث چلی آرہی ہے۔ ذوالقرنین : یہ ذوالقرنین کون تھے ؟ اس سوال کے جواب میں ہمارے مفسرین کی رائیں مختلف ہیں۔ عام طور پر لوگوں نے سکندر رومی کو ذوالقرنین قرار دیا ہے۔ بعض لوگ اس سے ایرانی بادشاہی کیخسرو (جسے خورس یا سائرس بھی کہا جاتا ہے) یا دارا کو مراد لیتے ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ ایک حمیری بادشاہ کا ذکر ہے۔ ان میں آخر الذکر قول کے حق میں کوئی قابل ذکر دلیل نہیں ہے۔ سکندر پر بھی وہ صفت منطبق نہیں ہوتیں جو قرآن نے ذوالقرنین کی بیان کی ہیں۔ قرآن نے ذوالقرنین کو پکا موحد، سچا مومن بالآخر۔ نہایت ہی عادل اور رعایا پرور قرار دیا ہے جب کہ سکندر کے اندر ان میں سے کوئی ایک بات بھی نہیں تھی۔ سکندر کی فتوحات کا دائرہ بھی اتنا وسیع نہیں ہے۔ جتنا وسیع قرآن نے ذوالقرنین کی فتوحات کا بیان کیا ہے۔ اس کے لیے ذوالقرنین کے لقب کے استعمال کی بھی کوئی شہادت موجود نہیں ہے۔ دارا کی بعض مغربی و مشرقی مہمات کا ذکر تاریخوں میں ضرور ملتا ہے لیکن اس راہ میں اس کی حیثیت پیش رو کی نہیں ہے بلکہ وہ درحقیقت کیخسرو ہی کی قائم کردہ ریاست کو مستحکم کرنے والا تھا۔ البتہ کیخسرو کی شخصیت کے متعدد پہلو ایسے ہیں جن کی بنا پر اس کو قرآن میں مذکورہ ذوالقرنین کا مصداق قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک صاحب ایمان اور عادل بادشاہ تھا جس کی عالی ظرفی اور مقبولیت کا اعتراف تمام پرانے اور نئے مورخین کو ہے۔ قرآن نے اس کی تین مہمات کا ذکر کیا ہے۔ جن میں سے مہمیں، مشرقی اور مغربی۔ تو تاریخ کی روشنی میں بھی ثابت ہیں۔ تیسری مہم کے بارے میں اگرچہ مورخین کوئی بات وثوق کے ساتھ نہیں کہتے لیکن شواہد اور قرائن اس کے بھی موجود ہیں۔ یہود کے صحیفوں میں ذوالقرنین کا ذکر : یہود پر اس بادشاہ کا عظیم احسان ہے کہ اس نے بابل کی اسیری سے ان کو نجات دلائی اور اس کی مدد سے بیت المقدس اور ہیکل کی ازسر نو تعمیر ہوئی۔ یہود کے انبیاء نے ان کی پیشین گوئی بھی کی تھی۔ یسعیاہ میں ہے : " خداوند اپنے ممسوح خورس کے حق میں یوں فرماتا ہے کہ میں نے اس کا دہنا ہاتھ پکڑآ کہ امتوں کو اس کے سامنے زیر کروں اور بادشاہوں کی کمریں کھلوا ڈالوں " (1۔ 54)۔ اس کی پیشین گوئی میں " خورس " " سائرس " کی ذرا سی بدلی ہوئی شکل ہے جو کیخسرو کے نام کا یونانی تلفظ ہے۔ اسی طرح دانیال نبی کا ایک مکاشفہ یوں منقول ہے : " تب میں نے آنکھ اٹھا کر نظر کی اور کیا دیکھتا ہوں کہ دریا کے پاس ایک مینڈھا کھڑآ ہے جس کے دوسینگ ہیں۔ دونوں سینگ اونچے تھے لیکن ایک دوسرے سے بڑا تھا اور بڑا دوسرے کے بعد نکلا تھا میں نے اس مینڈھے کو دیکھا کہ مغرب و شمال و جنوب کی طرف سینگ مارتا ہے یہاں تک کہ نہ کوئی جانور اس کے سامنے کھڑا ہوسکا اور نہ کوئی اس سے چھڑا سکا " (دانی ایل 8۔ 3۔ 4) اس مکاشفہ کی تعبیر حضرت دانیال کو حضرت جبرائیل نے یہ بتائی کہ دو سینگوں سے مراد مادا اور فارس کی دو بادشاہتیں ہیں جن کو موعود بادشاہ زیر نگیں کرے گا۔ چناچہ یہ واقعہ ہے کہ کیخسرو نے یہ دونوں سلطنتیں زیرنگیں کرلیں اور اسی بنیاد پر اس کا لقب ذوالقرنین (دو سینگوں والا) قرار پایا۔ اس کا ایک مجسمہ ماضی قریب میں اصطخر کے قریب دریافت ہوا ہے جو اردشیر اول کے زمان کا نصب کردہ ہے۔ اس میں اس کے تاج میں دو سینگ بھی ابھرے ہوئے نظر آئے ہیں یہ ہوسکتا ہے کہ یہ مجرد جلال و جبروت کی علامت کے طور پر ابھارے گئے ہوں یا ان کے اندر وہی رمز پوشیدہ ہو جس کا حوالہ اوپر گزرا۔ اس روشنی میں اب آیات کی تلاوت فرمائیے۔ وَيَسْأَلُونَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُمْ مِنْهُ ذِكْرًا۔ سائرس (کیخسرو) کے لیے ذوالقرنین کا لقب : سائرس (کیخسرو) کے لیے ذوالقرنین کا لقب، معلوم ہوتا ہے، عرب کے یہود کا اختیار کردہ ہے۔ سَأَتْلُو میں ایک قسم کی اپیل مضمر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ پوچھتے ہو تو میں ان کی سرگزشت کا کچھ سبق آموز حصہ سناؤں گا۔ امید ہے گوش دل سے سنوگے اور اس سے فائدہ اٹھاؤگے۔ لفظ " ذکر " میں یاد دہانی، تذکری اور سبق آموزی کا جو مفہوم مضمر ہے وہ اہل نظر سے مخفی نہیں ہے۔
Top