Tadabbur-e-Quran - Al-Kahf : 92
ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا
ثُمَّ : پھر اَتْبَعَ : وہ پیچھے پڑا سَبَبًا : ایک سامان
اس نے پھر ایک اور مہم کی تیاری کی
تفسیر آیات 92 تا 98:۔ ثُمَّ أَتْبَعَ سَبَبًا (92) حَتَّى إِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِنْ دُونِهِمَا قَوْمًا لا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ قَوْلا (93) قَالُوا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الأرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَى أَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا (94) قَالَ مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا (95) آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ حَتَّى إِذَا سَاوَى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انْفُخُوا حَتَّى إِذَا جَعَلَهُ نَارًا قَالَ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا (96) فَمَا اسْطَاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ وَمَا اسْتَطَاعُوا لَهُ نَقْبًا (97) قَالَ هَذَا رَحْمَةٌ مِنْ رَبِّي فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاءَ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا (98)۔ کیخسرو کی تیسری مہم اور سد کی تعمیر : یہ کیخسرو کی تیسری مہم کا ذکر ہے۔ مورخین نے اس مہم کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے لیکن وہ اتنا بتاتے ہیں کہ بابل کی فتح کے بعد وہ شمار مشرق کی سمت میں ایک سفر پر روانہ ہوا۔ غالباً اس کی منزل بحر خزر (کیسپین) کے مشرق میں ترکستان کی جانب تھی۔ اسی سفر کے دوران وہ کسی کھڈ میں گر کر ہلاک ہوگیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس مہم کے دوران اس سد کی تعمیر کا وہ واقعہ پیش آیا ہے جس کا قرآن نے یہاں تذکرہ کیا ہے۔ یاجوج و ماجوج : یہ سد، جیسا کہ قرآن سے واضح ہے یاجوج و ماجوج کے حملوں کو روکنے کے لیے تعمیر کی گئی۔ یاجوج ماجوجوج سے مراد نوح کے بیٹے یافث کی وہ اولاد ہے جو ایشیا کے شمالی علاقوں میں آباد ہوئی۔ حزقی ایل فرماتے ہیں :" اور خاوند کا کلام مجھ پر نازل ہوا کہ اے آدم زاد جوج کی طرف جو ماجوج کی سرزمین کا ہے اور روش، مسک اور توبل کا فرماں روا ہے متوجہ ہوا اور اس کے خلاف نبوت کر " (حزقی ایل۔ 38: 1)۔ " اور کہہ خداوند یوں فرماتا ہے دیکھ اے جوج ! روش، مسک اور توبل کے فرمانروا میں تیرا مخالف ہوں اور میں تجھے پھرا دوں گا اور تجھے لیے پھروں گا اور شمال کے دور اطراف سے چڑھا لاؤں گا " (حزقی ایل۔ 39، 1۔ 2)۔ روش، مسک اور توبل کے نام اب تک رشیا، ماسکو اور توبالسک کی صورت میں موجود ہیں اور یہ علاقے فلسطین سے شمال کے بعدی اطرفا میں ہیں یاجوج و ماجوج کے قبائل بحر خزر کے شمال کی جانب اور وسط ایشیا میں منگولیا کے علاقہ میں آباد تھے۔ ایران پر ان کی تاخت ترکستان کے رستے سے بھی ہوتی تھی اور کوہ قفقاز کے درّے کی راہ سے بھی۔ کوہ قفقاز کیخسرو کے دار الحکومت سے ٹھیک شمال کو ہے۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ بادشاہ نے کو بند کرکے اس خطرے کا سدباب کردینا چاہا ہو۔ درّہ داریال کی آہنی دیوار : کوہ قفقاز کے درۂ داریال میں ایک آہنی دیوار موجود ہے۔ سیاحوں نے اپنے سفرناموں میں اس کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ روایات میں ہے کہ عاسی خلیفہ واثق نے اس دیوار کی تحقیقات پر پچاس افراد کی ایک ٹیم مقرر کی، جس نے اس کے اس موقع و محل کا سراغ لگایا۔ اس دیوار کو لوگ دارا یا نوشیرواں کی طرف منسوب کرتے ہیں لیکن زیادہ شواہد اس بات کے حق میں ہیں کہ یہ کیخسرو نے تعمیر کرائی ہوگی۔ مثلاً یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ کیخسرو کی سلطنت کی شمالی حد کوہ قفقاز تک تھی۔ اتنا وسیع علاقہ زیر نگین کرلینا صرف اس صورت میں ممکن ہے۔ جب اس نے اس علاقہ کو فتح کرنے کے لیے کوئی اقدام کیا ہو۔ کو رش نام کا ایک شہر اور ایک دریا کوہ قفقاز کے علاقے میں اب تک موجود ہے۔ آہنی دیوار کو گورا کا نام دیا جاتا ہے جو کو رش ہی کی بگڑی ہوئی شکل معلوم ہوتی ہے۔ یہ دیوار دھات سے دو پہاڑیوں کے درمیان بنی ہوئی ہے اور اس کے نچلے حصے میں برسات کے پانی کے نکلنے کے لیے کچھ جگہ چھوڑ دی گئی ہے۔ لا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ قَوْلا سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دوسری قوموں سے بھی ان لوگوں کا کوئی میل جول نہ تھا۔ اپنے علاقہ کے اندر محدود اور دوسروں سے بالکل بےتعلق زندگی رکھنے کی وجہ سے یہ دوسروں کی زبان مشکل ہی سے سمجھ پاتے تھے۔ ذوالقرنین کا جذبہ خدمت خلق : مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ۔ " قوۃ " سے مراد یہاں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ رعایا نے دیوار کی تعمیر کے لیے مصارف کی فراہمی کی جو پیشکش کی وہ ازراہ فیاضی ذوالقرنین نے قبول نہیں کی۔ فرمایا کہ جہاں تک مال کا تعلق ہے وہ جتنا کچھ میرے رب نے میرے تصرف میں دے رکھا ہے وہ بہتر ہے۔ اس " بہتر " کے لفظ میں یہ بات بھی مضمر ہے کہ وہ کافی ہے اور یہ بات بھی اس میں ہے کہ یہ مال ظلم وتعدی اور لوٹ مار کی ہر آلائش سے بالکل پاک ہے۔ البتہ لیبر تم فراہم کرو، میں تمہارے اور مفسدین یاجوج و ماجوج کے درمیان ایک دیوار کھڑی کیے دیتا ہوں۔ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ حَتَّى إِذَا سَاوَى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ۔۔۔ الایۃ، " زبر " " زبرۃ " کی جمع ہے۔ اس کے معنی آہن پارے کے ہیں۔ " صدف " خول اور خلا کو کہتے ہیں۔ یہاں اس کے مثنی استعمال کرنے میں اس کے دونوں طرفوں کا لحاظ ہے۔ جس طرح " مشرقین " اور مغربین میں ان کے دونوں اطراف کا لحاظ ہے اسی طرح " صدفین " میں اس کے دونوں کناروں کا لحاظ ہے۔ مقصود یہی بتانا ہے کہ دونوں پہاڑوں کے درمیان کا خلا پورا بھر دیا گیا۔ هَذَا رَحْمَةٌ مِنْ رَبِّي فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَّاءَ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّي حَقًّا۔ " دکاء " اصل میں بےکوہان اونٹنی کو کہتے ہیں۔ یہاں اس سے مراد ہموار اور برابر کردینا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب اتنی عظیم الشان آہنی اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کھڑی ہوگئی کہ یاجوج و ماجوج کے لیے نہ اس پر چڑھنا ممکن رہا نہ اس میں نقب لگانا تو اس کو دیکھ کر ذوالقرنین نے تنک ظرفوں کی طرح غرور کے نشہ میں یہ نہیں کہا کہ میں یہ وہ کارنامہ کیے جا رہا ہوں کہ اس کے لیے کبھی زوال نہیں بلکہ پوری تواضع اور فروتنی کے ساتھ یہ کہا کہ یہ خدمت جو انجام پائی ہے محض میرے رب کے فضل و کرم کا کرشمہ ہے۔ آج یہ دیوار ناقابل تسخیر ہے لیکن جب میرے رب کے وعدے کے ظہور کا وقت آئے گا تو وہ اس کو پست و پامال کردے گا اور میرے رب کا وعدہ شدنی ہے۔ پیچھے دو شخصوں کی تمثیل کے ذیل میں مغرورین دنیا کیا یہ ذہنیت آپ پڑھ چکے ہیں کہ جب وہ اپنی کامیابی کے ہرے بھرے باغ میں داخل ہوتے ہیں تو غرور کے نشہ میں کہتے ہیں کہ ما اظن ان تبید ھذہ ابدا۔ میں گمان بھی نہیں کرتا کہ یہ باغ کبھی تباہ ہوسکے گا۔ اس کے بعد ایک عبد شاکر کی ذہنیت نمایاں فرمائی ہے کہ وہ اپنے بڑے سے بڑے کارنامہ پر بھی اپنے رب کا شکر گزار ہوتا ہے اور اللہ کے شدنی وعدہ آخرت کو یاد رکھتا ہے۔
Top