Tadabbur-e-Quran - Maryam : 37
فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَیْنِهِمْ١ۚ فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ مَّشْهَدِ یَوْمٍ عَظِیْمٍ
فَاخْتَلَفَ : پھر اختلاف کیا الْاَحْزَابُ : فرقے مِنْۢ بَيْنِهِمْ : آپس میں (باہم) فَوَيْلٌ : پس خرابی لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا : کافروں کے لیے مِنْ : سے مَّشْهَدِ : حاضری يَوْمٍ عَظِيْمٍ : بڑا دن
پس ان کے اندر سے مختلف فرقوں نے باہم اختلاف کیا۔ تو ان لوگوں کے لیے جنہوں نے کف کی ایک ہولناک دن کی حاضری کے باعث ہلاکی ہوگی
آگے کا مضمون۔ آیات 37 تا 40: آگے چند آیات میں نصاریٰ کے باہمی اختلافات پر ان کو ملامت اور ایک ایسے دن کی دھمکی ہے جس دن ایک علیم وخبیر خدا کی طرف سے ان کا سارا کچا چٹھا ان کے سامنے آجائے گا۔ آیات کی تلاوت کیجیے۔ فَاخْتَلَفَ الأحْزَابُ مِنْ بَيْنِهِمْ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ مَشْهَدِ يَوْمٍ عَظِيمٍ۔ نصاری کی گروہ بندیاں : یعنی حضرت مسیح کی اصل حقیقت تو وہ ہے جو اوپر بیان ہوئی اور یہ اس قدر واضح بات ہے کہ اس میں کسی اختلاف و نزاع کی گنجائش نہیں تھی لیکن عیسائیوں نے اپنی بدبختی سے اس میں اختلاف پیدا کیا۔ اور ان کے اندر بہت سے چھوٹے بڑے فرقے پیدا ہوگئے۔ ان میں سے حق پر صرف وہ تھوڑے سے لوگ قائم رہے جو شمعون کے پیرو تھے۔ یہی لوگ تھے جو نبی ﷺ کی دعوت پر ایمان لائے اور انہی کی قرآن نے تعریف کی ہے۔ باقی سب جو پال کے پیرو ہوئے وہ مختلف گروہوں میں بٹتے چلے گئے۔ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ یہ دو فرقے تو مشہور ہی ہیں ان کے علاوہ اور بھی چھوٹے بڑے بہت سے چرچ ان کے اندر ہیں۔ مَشْهَدِ يَوْمٍ عَظِيمٍ سے مراد : مَشْهَدِ يَوْمٍ عَظِيمٍ ، سے ہمارے نزدیک حضرات انبیاء کی وہ شہادت مراد ہے جو قیامت کے روز وہ اپنی اپنی امتوں کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے دیں گے۔ اس شہادت کی پوری تفصیل سورة مائدہ میں بیان ہوئی ہے۔ حضرت عیسیٰ کی شہادت کا ضروری حصہ ملاحظہ فرمائیے۔ " وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ إِنْ كُنْتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنْتَ عَلامُ الْغُيُوبِ (116) مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (117): جب کہ اللہ پوچھے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم ! کیا تم نے لوگوں کو یہ تعلیم دی تھی کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو معبود بناؤ، وہ کہیں گے تو پاک ہے میرے لیے یہ کس طرح زیبا تھا کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے کہی ہوگی تو تو اسے جانتا ہے۔ جو کچھ میرے جی میں ہے اس کو تو جانتا ہے لیکن جو کچھ تیرے جی میں ہے اس کو میں نہیں جانتا بیشک غیب کا راز دان تو ہی ہے۔ میں تو ان سے صرف وہی بات کہی جس کا تو نے مجھے حکم دیا کہ اللہ ہی کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی۔ میں جب تک ان کے اندر رہا ان پر گواہ رہا پھر جب تو نے مجھے وفات دے دی تو ان کا نگران حال تو ہے اور تو ہر چیز سے باخبر ہے۔ اگر تو ان کو سزا دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر ان کو بخشے تو تو غالب اور حکیم ہے " (المائدہ : 116 تا 117)۔ آیات زیر بحث میں اسی مشہد عظیم سے عیسائیوں کو ڈرایا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب خود حضرت عیسیٰ سے اللہ تعالیٰ وہ گواہی دلوا دے گا جو مائدہ کی مذکورہ بالا آیات میں بیان ہوئی ہے تو نصاریٰ نہ تو حضرت عیسیٰ کو منہ دکھانے کے قابل رہ جائیں گے نہ اللہ تعالیٰ کو۔ پھر تو ان کے لیے ہلاکی اور ماتم کے سوا کوئی اور چیز باقی نہیں رہ جاتی۔
Top