Tadabbur-e-Quran - Maryam : 50
وَ وَهَبْنَا لَهُمْ مِّنْ رَّحْمَتِنَا وَ جَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیًّا۠   ۧ
وَوَهَبْنَا : اور ہم نے عطا کیا لَهُمْ : انہیں مِّنْ : سے رَّحْمَتِنَا : اپنی رحمت وَجَعَلْنَا : اور ہم نے کیا لَهُمْ : ان کا لِسَانَ : ذکر صِدْقٍ : سچا۔ جمیل عَلِيًّا : نہایت بلند
اور ان کو اپنے فضل میں سے حصہ دیا اور ان کو نہایت پائیدار شہرت عطا فرمائی
وَوَهَبْنَا لَهُمْ مِنْ رَحْمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا۔ " رحمت " سے مراد وہ تمام افضال و عنایات اور وہ تام برکتیں اور رحمتیں ہیں جو حضرت ابراہیم اور آل ابراہیم کو از قبیل نبوت و رسالت اور از قسم برکات دنیا حاصل ہوئیں اور جن کی تفصیلات بقرہ کی تفسیر میں گزر چکی ہیں۔ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا کا مفہوم : " لسان صدق " میں لسان سے مراد ذکر، چرچا اور شہرت ہے۔ لفظ صدق کے اندر رسوخ، پائداری اور استحکام کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یہ اسی طرح کی ترکیب ہے جس طرح دوسرے مقام میں " قدم صدق " کی ترکیب استعمال ہوئی ہے۔ مطل یہ ہے کہ اللہ نے ان کی دعوت کو خوب فروخ دیا اور ان کو وہ پائیدار عزت و شہرت حاصل ہوئی جو دنیا میں کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔ اس کی پائیداری کا یہ عالم ہے کہ ہزاروں برس گزر گئے لیکن اس پر کہنگی نہیں آئی۔ سینکڑوں، ہزاروں جلیل القدر انبیاء و مصلحین اس مبارک خانوادے سے اٹھے اور حضرت ابراہیم کے مشن کو زندہ کرتے رہے۔ آخر میں حضرت اسماعیل کی نسل سے اسی ملت ابراہیم پر حضرت سرور عالم محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی جس سے اس عظمت و شہرت کو بقائے دوام حاصل ہوگیا۔ یہ سب کچھ حضرت ابراہیم کی اس دعا کی برکت ہے جس کا حوالہ سورة شعراء میں یوں آیا ہے۔ واجعل لی لسان صدق فی الاخرین۔
Top