Tadabbur-e-Quran - Maryam : 52
وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا
وَنَادَيْنٰهُ : اور ہم نے اسے پکارا مِنْ : سے جَانِبِ : جانب الطُّوْرِ : کوہ طور الْاَيْمَنِ : داہنی وَقَرَّبْنٰهُ : اور اسے نزدیک بلایا نَجِيًّا : راز بتانے کو
اور ہم نے اس کو طور کے مبارک کے کنارے سے آواز دی اور راز و سرگوشی کے لیے اس کو قریب کیا
وَنَادَيْنَاهُ مِنْ جَانِبِ الطُّورِ الأيْمَنِ وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيًّا۔ " ایمن " کے معنی داہنے کے بھی ہیں۔ اور مقدس و مبارک کے بھی۔ ہمارے نزدیک یہ یہاں مقدس و مبارک کے معنی میں ہے۔ قرآن کے نظائر سے اسی معنی کی تائید ہوتی ہے۔ آگے سورة طہ میں یہی مضمون یوں بیان ہوا ہے۔ " فلما اتاھا نودی یموسی۔ انی انا ربک فاخلع نعلیک۔ انک بالواد المقدس طوی۔ وانااخترتک فاستمع لما یوح : پس جب وہ اس کے پاس آیات تو اس کو آواز آئی کہ اے موسیٰ یہ تو میں تمہارا رب ہوں تو تم اپنے جوت اتار دو ، تم وادی مقدس طویٰ میں ہو اور میں نے تمہیں منتخب کیا تو سنو جو تمہیں وحی کی جا رہی ہے " (طہ۔ 11۔ 13) اس آیت سے واضح ہے کہ حضرت موسیٰ کو جو صدا سنائی دی وہ وادی مقدس طویٰ کی سمت سے سنائی دی۔ اس وادی کو تقدس کا یہ درجہ اس وجہ سے حاصل ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی جلوہ گاہ ہونے کا شرف بخشا اور یہاں حضرت موسیٰ سے اس نے کلام کیا۔ اسی تقدیس کو آیت زیر بحث میں " ایمن " سے تعبیر فرمایا ہے۔ اور یہ چیز ایک قابل ذکر چیز تھی۔ جہاں تک اس لفظ کے دوسرے معنی کا تعلق ہے طور کی داہنی جانب کی نشانی دہی کی کوئی خاص افادیت سمجھ میں نہیں آتی۔ وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيًّا۔ نجی راز اور سرگوشی کو بھی کہتے ہیں اور اس شخص کو بھی کہتے ہیں جس سے سرگوشی کے انداز میں بات کی جائے، اور اس کو محرم راز بنایا جائے، یہ حضرت موسیٰ کے اسی امتیازِ خاص کی وضاحت ہے۔ جس کا ذکر اوپر والی آیت میں ہوا ہے۔ فرمایا کہ ہم نے طور کی مبارک جانب سے اس کو پکارا اور راز و نیاز کے لیے اس کو قریب کیا۔ حضرت موسیٰ کے ساتھ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے جو کلام کیا اس کو راز و نیاز اور سرگوشی سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرات انبیاء سے جب کلام کیا ہے تو ہمیشہ اپنے مقرب و معتمد فرشتے حضرت جبرئیل امین کے واسطہ ہی سے کیا ہے، کبھی براہ راست کلام نہیں کیا۔ یہ شرف صرف حضرت موسیٰ کو حاصل ہوا کہ ان سے حضرت جبریل کے واسطہ کے بغیر بات کی۔ کوئی تیسرا بیچ میں حائل نہیں ہوا۔ البتہ حضرت موسیٰ کو اس موقع پر بھی باوجود اشتیاق کے، اللہ تعالیٰ کا دیدار حاصل نہ ہوسکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عالم ناسوت میں کوئی جن و بشر یہاں تک کہ پہاڑ بھی خدا کی تجلی کی تاب نہیں لا سکتا۔ یہاں ان باتوں کا کوئی ذکر نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ اور حضرت موسیٰ کے مابین اس موقع پر ہوئیں۔ اس کی تفصیل سورة طہ میں آئے گی۔
Top