Tadabbur-e-Quran - Maryam : 64
وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ١ۚ لَهٗ مَا بَیْنَ اَیْدِیْنَا وَ مَا خَلْفَنَا وَ مَا بَیْنَ ذٰلِكَ١ۚ وَ مَا كَانَ رَبُّكَ نَسِیًّاۚ
وَمَا : اور ہم نَتَنَزَّلُ : نہیں اترتے اِلَّا : مگر بِاَمْرِ : حکم سے رَبِّكَ : تمہارا رب لَهٗ : اس کے لیے مَا بَيْنَ اَيْدِيْنَا : جو ہمارے ہاتھوں میں ( آگے) وَمَا : اور جو خَلْفَنَا : ہمارے پیچھے وَمَا : اور جو بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان وَمَا : اور نہیں كَانَ : ہے رَبُّكَ : تمہارا رب نَسِيًّا : بھولنے والا
اور ہم نہیں اترتے مگر آپ کے رب کے حکم سے۔ ہمارے آگے اور پیچھے اور جو کچھ اس کے درمیان ہے سب اسی کے اختیار میں ہے اور آپ کا رب کسی چیز کو بھولنے والا نہیں ہے
آگے کا مضمون۔ آیات 64 تا 98: خاتمہ : سورة : آگے خاتمۂ سورة کی آیات ہیں۔ پہلے نبی ﷺ کو حضرت جبرئیل امین کی زبانی مخالفین کے مقابل میں صبر و استقامت کی تلقین ہے۔ پھر مخالفین کو ان کے انکارِ قیامت پر توبیخ ہے۔ خاص طور پر ان کی اس ذہنیت پر شدت کے ساتھ ضرب لگائی گئی ہے کہ آج اہل ایمان کے بالمقابل ان کو جو دنیوی برتری حاصل ہے اس کو وہ اپنے برحق ہونے کی دلیل سمجھے بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ بالفرض قیامت ہوئی تو وہ اپنے مزعومہ شرکاء و شفعاء کی بدولت وہاں بھی اونچا مقام حاصل کریں گے۔ آخر میں حضور کو لوگوں کے مطالبہ عذاب سے بےپروا ہوکر، قرآن کے ذریعے سے انذار وتبشیر کی ہدایت فرمائی گئی ہے کہ یہ ہر مرحلہ میں اتمام حجت کے تمام لواز سے آراستہ ہے تو تم اسی کے ذریعہ سے انداز وتبشیر کرو، جن کے اندر خوفِ خدا ہو وہ اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔ رہے وہ لوگ جو ضدی اور جھگڑالو ہیں تو ان کو ان کے انجام سے آگاہ کردو۔ اگر وہ اپنی ضد پر اڑے رہے تو وہ اس ضد کے انجام سے خود دوچار ہوں گے، تم ان کی ذمہ داری سے بری ہو۔ اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمائیے۔ تفسیر آیات 64 تا 65: وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ ۚ لَهٗ مَا بَيْنَ اَيْدِيْــنَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذٰلِكَ ۚ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِـيًّا۔ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا وسط کلام میں حضرت جبریل کی طرف سے ایک تلقین : یہ کلام حضرت جبرئیل امین کی طرف سے ہے جس میں انہوں نے آنحضرت ﷺ کو صبر و استقامت کی تقلین بھی فرمائی ہے اور اپنی اور دوسرے ملائکہ حیثیت بھی واضح فرما دی کہ ہم اپنے اختیار سے کچھ کرنے کے مجاز نہیں ہیں، ہمارا کام صرف اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری ہے۔ اس تلقین صبر اور اس وضاحت کا ایک خاص موقع و محل ہے۔ وہ یہ کہ حق و باطل کی کشمکش کے اس مرحلہ میں مخالفین کے بالمقابل آنحضرت سلی اللہ علیہ وسلم کے لیے واحد سہارا بس وحی الٰہی کا سہارا تھا۔ اسی آسمانی کمک سے مشکلات میں آپ کو تقویت و رہنمائی بھی حاصل ہوتی تھی اور اسی کے ذریعے سے مخالفین کے نت نئے اعتراضات کا جواب اور ان کے اٹھائے ہوئے فتنوں کا توڑ بھی ہوتا تھا۔ اس وجہ سے قدرتی طور پر آنحضرت ﷺ کو اس مرحلہ میں نہایت بےچینی کے ساتھ حضرت جبریل کا، جو وحی الٰہی لانے کا ذریعہ تھے، انتظار رہتا۔ آنحضرت ﷺ کی یہ بےچینی حالات کا لازمی تقاضا تھی۔ جو مجاہد دشمنوں کی دل بادل فوج کے مقابل میں محاذ ہو اس کو مرکز سے رہنمائی کا انتظار ہر وقت رہتا ہے تاکہ اس کا کوئی قدم غلط نہ اٹھ جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا ہر کام اس کی حکمت و مصلحت کے تحت ہوتا ہے جس کو صرف وہی جانتا ہے۔ اسی وجہ سے آنحضرت ﷺ کو اس بےچینی پر قرآن میں جگہ جگہ صبر و انتظار کی تلقین کی گئی ہے کہ اپنے موقف پر ڈٹے رہو، جلدی نہ کرو، جس رہنمائی اور مدد کی ضرورت ہوگی وہ اپنے وقت پر اللہ نازل فرمائے گا۔ یہی مضمون سورة طہ میں یوں وارد ہوا ہے۔ " ولا تعجل بالقرآن من قبل ان یقضی الیک وحیہ، وقل رب زدنی علما : اور قرآن کے لیے، اس کی وحی اپنی طرف تمام کیے جانے سے پہلے، جلدی نہ کرو اور دعا کرتے رہو کہ اے میرے رب، میرے علم میں افزونی فرما " (طہ۔ 114)۔ یہ مضمون قرآن میں دوسرے مقامات میں بھی آیا ہے لیکن یہاں یہ حضرت جبریل امین کی زبان سے ادا ہوا ہے جس سے اس کی بلاغت میں بڑا اضافہ ہوگیا ہے۔ ہم اس کے بعض پہلووں کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں پہلی قابل توجہ چیز تو یہ ہے کہ یہ حضرت جبریل امین کی طرف سے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ایک نوع کی معذرت ہے کہ اگر ہم جلدی جلدی، آپ کے شوق و انتظار کی تسکین کے لیے، وحی لے کر نہیں اترتے تو اس میں ہماری کسی کوتاہی کو دخل نہیں ہے بلکہ ہمارا اترنا تمام تر اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت ہے۔ جب تک اس کا حکم نہ ہو ہم اتر سکتے ہیں اور نہ ہم آپ کے پاس کوئی وحی لاسکتے ہیں۔ اس معاملہ میں ہمیں کوئی دخل نہیں ہے۔ ہم صرف اسکے احکام کی بجا آوری پر مامور ہیں۔ حضرت جبریل اور ملائکہ کی اصل حیثیت : دوسری چیز قابل توجہ یہ ہے کہ اس سے حضرت جبریل امین اور پورے زمرۂ ملائکہ کی حیثیت واضح ہوگئی کہ ان کے تمام پیش و عقب اور جو کچھ ان کے مابین ہے سب پر اللہ تعالیٰ کی نگرانی اور اس کا مکمل کنٹرول ہے۔ مجال نہیں کہ کوئی سرِ مو اپنے دائرہ سے تجاوز کرسکے یا کوئی اقدام اپنے ارادے سے کرسکے۔ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو فراموش کرنے والا بھی نہیں ہے کہ کوئی اس کی بھول چوک سے فائدہ اٹھا کر کسی معاملے میں اپنی آزادی رائے استعمال کرکے اس کی پکڑ سے محفوظ رہ سکے۔ فرشتوں کی اس حیثیت کا واضح ہونا ان مشرکین عرب کی حماقت پر ضرب لگانے کے لیے ضروری تھا جو فرشتوں کی پوجا کرکے یہ آس لگائے بیٹھے کہ اگر قیامت ہوئی تو یہ خدا کی بیٹیاں اپنے باپ سے کہہ سن کے ان کو بخشوا ہی لیں گی۔ ان بیوقوف لوگوں کو حضرت جبریل کا یہ بیان سنا کر آگاہ کردیا گیا کہ جب رب ذوالجلال کی بارگاہ میں جبریل امین کی، جو تمام زمرۂ ملائکہ کے گل سرسبد ہیں، بےبسی کا یہ حال ہے تو تابہ دیگراں چہ رسد ! آنحضرت ﷺ کو اطمینان دہانی : وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِـيًّا، میں ایک اور پہلو کی طرف بھی ذہن جاتا ہے۔ وہ یہ کہ پیغمبر کو اطمینان دہانی ہے کہ اگر وحی الٰہی میں کبھی دیر ہو تو یہ اطمینان رکھیے کہ یہ دیر کسی حکمت و مصلحت پر مبنی ہے اس لیے کہ آپ کا رب کسی چیز کو بھولنے والا نہیں ہے، وہ آپ کے تمام حالات و مسائل سے باخبر اور ایک ایک دعا و مناجات کو یاد رکھے ہوئے ہے۔ اس کا اندیشہ نہیں ہے کہ وہ کسی چیز کو بھول جائے۔ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهٖ ۭ هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِيًّا۔ لفظ سمی آیت 7 میں گزر چکا ہے۔ اس کے معنی نظیر اور مثیل کے ہیں۔ یہ آیات حضرت جبریل کے قول کا جزو بھی ہوسکتی ہے اور بطریق تضمین اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت جبریل امین کے قول کی تکمیل بھی۔ اس قسم کی تضمین کی مثالیں قرآن مجید میں بہت ہیں۔ ایک مثال سورة کہف میں بھی گزر چکی ہے۔ ان دونوں شکلوں میں جو شکل بھی اختیار کیجیے فرق صرف متکلم میں ہوگا، کلام کے مدعا میں کوئی فرق نہ ہوگا اور یہ متکلم کا فرق بھی محض ظاہری ہوگا اس لیے کہ حضرت جبریل جو بات بھی فرماتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے حکم ہی سے فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ درباب وحی تم اپنا عذر واضح کردو چناچہ انہوں نے واضح فرما دیا۔ میرا رجحان پہلے قول کی طرف ہے۔ یعنی حضرت جبریل نے آنحضرت ﷺ کو صبر اور انتظار کی تلقین فرمائی کہ آپ کا معاملہ کسی ایسی ویسی ذات سے نہیں بلکہ تمام آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کے رب کے ساتھ ہی تو اسی کی بندگی کیجیے اور اس کی بندگی پر پورے استقلالا و پامردی سے جمے رہیے۔ قرینہ دلیل ہے کہ یہاں لفظ عبادت، اپنے وسیع مفہوم یعنی عبادت اور اطاعت دونوں پر مشتمل ہے۔ اس لفظ کی یہ حقیقت ہم تفسیر سورة فاتحہ میں واضح کرچکے ہیں۔ آیت 44 میں بھی یہ لفظ اطاعت کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ لفظ " اصطبار " میں صبر کے بالمقابل زیادہ زور ہے۔ عربیت کے اس قاعدے کو یاد رکھیے کہ حروف کی زیادتی معنی کی زیادتی پر دلیل ہوتی ہے اور صبر یا اصطبار کے بعد اگر " ل " ہو تو یہ انتظار کے مفہوم پر بھی متضمن ہوتا ہے۔ ہم نے لفظ کے ان مضمرات کو ترجمہ میں کھولنے کی کوشش کی ہے لیکن عربی زبان کے یہ ناز پہلو اردو کی گرفت میں مشکل ہی سے آتے ہیں۔ سورة طہ میں بھی یہ مضمون آئے گا وہاں انشاء اللہ ہم اس پر مزید روشنی ڈالیں گے۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِيًّا یعنی جب خدا کا کوئی نظیر و مثیل اور ثانی نہیں تو کون ہے جو اس کے ارادوں میں مزاحم ہوسکے یا اس کا ہاتھ پکڑ سکے۔ آپ اپنا کام کیے جائیے وہ ہر مشکل کو آسان کرے گا اور اپنے ہر ارادے کو بروئے کار لائے گا
Top