Tadabbur-e-Quran - Maryam : 72
ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا
ثُمَّ : پھر نُنَجِّي : ہم نجات دینگے الَّذِيْنَ اتَّقَوْا : وہ جنہوں نے پرہیزگاری کی وَّنَذَرُ : اور ہم چھوڑ دینگے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) فِيْهَا : اس میں جِثِيًّا : گھٹنوں کے بل گرے ہوئے
پھر ہم ان لوگوں کو نجات بخشیں گے جنہوں نے تقوی اختیار کیا ہوگا اور اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والوں کو اسی میں اکڑوں بیٹھے چھوڑ دیں گے
ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا۔ ثُمَّ ترتیب کو ظاہر کرتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ پہلے ظالموں سے نمٹے گا، ان کو واصل جہنم کرنے کے بعد ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوگا جو اس سے ڈرتے رہے۔ فرمایا کہ پھر ہم ان لوگوں کو نجات دیں گے جو ہم سے ڈرتے رہے اور ظالموں کو اسی جہنم میں اکڑوں بیٹھے چھوڑ دیں گے۔ " نجات دیں گے " سے مراد یہ نہیں ہے کہ جہنم سے نجات دیں گے۔ جہنم کی تو اہل تقوی کو، جیسا کہ اوپر گزرا، ہوا بھی نہیں لگنے پائے گی۔ یہاں " نجات دینے " سے مراد ان تمام ہموم و افکار اور اس تشویش و انتظار سے نجات دینا ہے جن سے بہرحال منزل مقصود پر پہنچنے سے پہلے تک اہل حق کو بھی سابقہ پیش آتا ہے۔ ایک شبہ کا ازالہ : وَنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا میں لفظ جِثِی کی تحقیق اوپر گزر چکی ہے۔ جثی ان کو کہتے ہیں جو مجرموں کی طرح اپنی قسمت کے فیصلے کے انتظار میں دو زانوبیٹھے ہوئے ہوں۔ اوپر والی آیت میں تو اس کا محل استعمال بلکل واضح ہے لیکن یہاں اس کا استعمال کھٹکتا ہے اس لیے کہ فیھا کا قرینہ دلیل ہے کہ یہ ان کی جہنم کے اندر کی حالت بیان ہورہی ہے لیکن اس کے اندر تو ان کے رونے چلانے کا ذکر ہونا چاہیے، جیسا کہ دوسرے مقامات میں ہے۔ نہ کہ اکڑوں بیٹھنے کا۔ اس مشکل سے بچنے کے لیے اس کا مفہوم ہمارے مفسرین اور مترجموں نے بدل دیا ہے لیکن یہ تبدیلی لغت سے تجاوز کی نوعیت کی ہے اس وجہ سے ہم کو اس سے اتفاق نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک یہ حالت بیان تو ہوئی ہے جہنم کے اندر ہی کی لیکن یہ بالکل ابتدائی مرحلہ کی بات ہے جب کہ وہ فیصلہ الٰہی کے بعد جہنم کے داروغوں کے حوالہ کیے جائیں گے اور اکڑوں بیٹھے عذاب کے دروازے کے کھلنے کے منتظر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کو دوزخ کے داروغوں کے حوالہ کرکے اسی حالت میں چھوڑ کر ان سے بےالتفات ہوجائے گا اور اس کے بعد ان کے لیے عذاب کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔
Top