Tadabbur-e-Quran - Maryam : 85
یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَى الرَّحْمٰنِ وَفْدًاۙ
يَوْمَ : جس دن نَحْشُرُ : ہم جمع کرلیں گے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع) اِلَى الرَّحْمٰنِ : رحمن کی طرف وَفْدًا : مہمان بنا کر
یاد کرو جس دن ہم خدا ترسوں کو خدائے رحمان کی طرف وفد وفد لے جائیں گے
تفسیر آیات 85 تا 87: يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَنِ وَفْدًا (85) وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِينَ إِلَى جَهَنَّمَ وِرْدًا (86) لا يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا (87) وفد کا مفہوم : " وفد وفدا کے معنی کہیں عزت و اکرام کے ساتھ جانے کے ہیں جس طرح سفیر اور قاصد بادشاہ اور امیر کے پاس جاتے ہیں۔ ورد، ورد یرد سے اسم ہے۔ اس کے معنی گھاٹ پر اترنے کے ہیں جس طرح پیاسے اونٹ گھاٹ پر جاتے ہیں۔ إِلا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا میں میرے نزدیک استثناء منقطع ہے۔ یہ ان مجرموں کی مزعومہ شفاعت کی نفی ہے۔ فرمایا کہ جس دن ہم متقیوں کو اعزاز کے ساتھ خدائے رحمان کے پاس لے جائیں گے اور ان مجرموں کو پیاسے اونٹ کی طرح جہنم کے گھاٹ کی طرف ہانکیں گے۔ اس دن ان کے مزعومہ شفعاء کو شفاعت کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہوگا۔ یہ حق صرف ان لوگوں کو حاصل ہوگا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا حق حاصل کر رکھا ہے۔ شفاعت سے متعلق چند اصولی باتیں : یہ حق کن لوگوں کو حاصل ہوگا ؟ اس سوال پر ہم اس کتاب میں مناسب مواقع پر بحث کرتے آئے ہیں۔ چند اصولی باتوں کی یاد دہانی بھی کیے دیتے ہیں۔ شفاعت کا مقام صرف انبیائے کرام اور شہدائے امت کو حاصل ہوگا، یہ ایک منصب تکریم و تشریف ہے جس پر اللہ تعالیٰ صرف ان لوگوں کو سرفراز فرمائے گا جو اس اکرام و اعزاز کے سزاوار ہوں گے۔ یہ لوگ بھی خدا کی اجازت سے شفاعت کریں گے اور صرف ان لوگوں کے لیے کریں گے جن کے لیے اللہ تعالیٰ اجازت مرحمت فرمائے۔ یہ نہیں ہوگا کہ یہ کسی کی شفاعت کے لیے خود پیش قدمی کریں یا ان لوگوں کے لیے شفاعتکریں جن کے لیے خدا سے ان کو اجازت حاصل نہ ہو۔ یہ اپنی شفاعت میں وہی بات کہیں گے جو بالکل حق ہوگی۔ باطل کو حق یا بدی کو نیکی بنانا نہ ان کے شیان شان ہے نہ خدائے علام الغیوب کے آگے کوئی اس کی جسارت کرسکتا ہے جن لوگوں نے شرک و الحاد کی زندگی گزاری یا ایمان کے تو مدعی رہے لیکن ساری زندگی بطالت اور خدا اور رسول کی نافرمانی گزاری ان کے لیے کوئی شفاعت نہیں یہ ساری باتیں خود قرآن کے نصوص سے ثابت ہیں۔ ہم نے ان پر جگہ جگہ بحث کی ہے اور آگے بھی انشاء اللہ تفصیل سے ان پر بحث کریں گے۔ ظاہر ہے کہ جب یہ ساری شرطیں شفاعت پر عاید ہیں اور ان سے انکار نہیں کیا جاسکتا تو شفاعت کے بل پر گناہوں کے لیے لیسنس دینے یا حاصل کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ پھر تو شفاعت کی امید اگر کرسکتے ہیں تو وہ لوگ کرسکتے ہیں جنہوں نے زندگی تو ایمان و عمل صالح اور توبہ و اصلاح کی گزاری لیکن کو تاہی، غفلت یا جذبات سے مغلوب ہو کر نیکیوں کے ساتھ غلطیاں بھی کرتے رہے۔ اس طرح کے لوگ، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سزاوار ٹھہریں اور نبی ﷺ کی شفاعت پر بخش دیے جائیں۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے شفاعت کے بل پر گناہوں ہی کو اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے اور یہود کی طرح امید وار ہیں کہ " سیغفرلنا " ہم امت مرحومہ ہیں، ہمارے سارے گناہ بخش دیے جائیں گے تو قرآن کی روشنی میں اس خوش فہمی کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔
Top