Tadabbur-e-Quran - Maryam : 96
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : نیک سَيَجْعَلُ : پیدا کردے گا لَهُمُ : ان کے لیے الرَّحْمٰنُ : رحمن وُدًّا : محبت
البتہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے ان کے لیے خدائے رحمان مہر و محبت پیدا کردے گا
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا۔ فتحمند ٹیم کا حال : اب یہ ان لوگوں کا ذکر فرمایا جو اس کسمپرسی اور نفسی نفسی کی حالت سے محفوظ ہوں گے۔ فرمایا کہ البتہ وہ لوگ جنہوں نے ایمان و عمل صالح کی زندگی گزاری ہوگی ان کے لیے خدائے رحمان ہر طرف مہر و محبت کی فضا پیدا کردے گا۔ یہاں بات اجمال کے ساتھ ارشاد ہوئی ہے لیکن دوسرے مقامات میں تصریح ہے کہ ا دن اہل ایمان کا خیر مقدم فرشتے بھی سلام و تحیت کے ساتھ کریں گے، رب العزت کی طرف سے بھی ان کو سلام کہلایا جائے گا اور خود اہل ایمان بھی ایک فتحمند ٹیم کی طرح ایک دوسرے کو مبارک باد دیں گے۔ غرض ہر طرف فضا احسنت و مرحبا کے کلمات سے گونج رہی ہوگی ! صفتِ رحمان کی تکرار کی حکمت : اس مجموعۂ آیات بلکہ اس پوری سورة میں آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ اسمائے حسنی میں سے اسم " رحمان " بار بار آیا ہے۔ قرآن کی کسی سورة میں بھی یہ نام اتنی بار نہیں آیا ہے جتنی بار اس سورة میں آیا ہے۔ میرے استاذ مولانا فراہی ؒ تو اس سورة کو رحمانی سورة کہتے بھی تھے۔ ظاہر ہے کہ بات بلا کسی حکمت کے نہیں ہے۔ میرے نزدیک اس کی حکمت یہ ہے کہ خدا کی صفات اور بندوں کے ساتھ اس کے معاملات کے باب میں ملتوں کو بیشتر گمراہی خدا کی صفت رحمانیت کے غلط تصور ہی سے پیش آئی ہے۔ اس سورة میں دوسرے مطالب کے ساتھ رحمانیت کے غلط تصور کی اصلاح کرکے اس کا صحیح تصور بھی دیا گیا ہے اس وجہ سے اسم رحمان کا حوالہ اس میں بار بار آیا ہے۔ رحمانیت کے غلط تصور سے پیدا شدہ گمراہیاں : رحمانیت کے غلط تصور نے جو گمراہیاں پیدا کی ہیں ان میں سے بعض کی طرف اشار کرنا چاہتا ہوں۔ سورة میں سب سے پہلے نصاریٰ کا ذکر ہے اس وجہ سے پہلے انہی کی گمراہی کو لیجیے۔ ان کی گمراہی میں بڑا دخل ان کے اس واہمہ کو تھا کہ انسان چونکہ ازلی و ابدی گنہگار ہے، اس کی نجات کی کوئی شکل ہی نہیں ہے۔ اس وجہ سے خدائے رحمان نے اپنی رحمت سے اپنے بیٹے کو بھیجا جو قربان ہو کر اپنے تمام ماننے والوں کے گناہوں کا کفارہ بن گیا۔ یہود کی گمراہی اس سورة میں اگرچہ براہ راست زیر بحث نہیں آئی ہے لیکن قرآن سے یہ بات واضح ہے کہ انہوں نے بھی اپنے جرائم کی پردہ پوشی کے لیے خدا کی رحمانیت ہی کی آڑ لی تھی۔ ان کا تصو یہ تھا کہ ہم نبیوں اور ولیوں کی اولاد ہیں اس وجہ سے اول تو ہم دوزخ میں ڈالے ہی نہیں جائیں گے اور اگر ڈالے بھی گئے تو بس چند دن کے بعد کچھ تنبیہ کرکے خدائے رحمان ہم کو بخش دے گا۔ مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں بنا کر ان کی پوجا کرتے تھے۔ ان کا تصور یہ تھا کہ اول تو حشر نشر کی باتیں محض خیالی ہیں لیکن اگر ان کے اندر کچھ حقیقت ہے تو خدائے رحمان کی یہ بیٹیاں سفارش کرکے ان کو اپنے باپ سے بخشوا ہی لیں گی۔ رحمانیت کا صحیح تصور : یہ تمام غلط فہمیاں اور گمراہیاں پس منظر میں موجود تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اصلاح کے لیے اپنی رحمانیت کا صحیح تصور واضح فرمایا کہ اس کی رحمت اس کے عدل کو باطل نہیں کرتی بلکہ اس کا عدل بھی اس کی رحمت ہی کا مقتضی ہے۔ وہ متقیوں کو جو بشارت دیتا ہے یہ بھی رحمت ہے اور سرکشوں کو جو انذار کرتا ہے یہ بھی اس کی رحمت ہے۔ وہ اگر ظالموں اور سرکشوں کو اس لیے معاف کردے کہ وہ بزرگوں اور نبیوں کی اولاد ہیں یا کسی نے ان کی سفارش کی ہے یا وہ اس کے مزعومہ بیٹے سے محبت کرنے والے ہیں تو یہ رحمت نہیں ہوگی بلکہ صریح ظلم ہوگا۔ اور اگر خدا یسا کرے تو وہ خدائے رحمان نہیں ہوگا بلکہ نعوذ باللہ نہایت ظالم خدا ہوگا۔ وہ رحمان ہے تو اس کی اس رحمت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ حق پرستوں کی داد رسی کرے اور ان کی حق پرستی کا بھرپور صلہ دے اور ظالموں ناہنجاروں کو جہنم میں جھونک دے۔ یہ ظالموں کو جہنم میں جھونک دینا اس کی رحمت و رحمانیت کے منافی نہیں بلکہ یہ عین اس کی رحمت ہی کا ظہور ہے۔ یہ بات بھی یہاں یاد رکھیے کہ جو لوگ خدا کی نافرمانی کرتے ہیں وہ خدا کا کچھ نہیں بگاڑتے بلکہ اپنا اور خدا کے بندوں کو بگاڑتے ہیں۔ خدا کے حدود وقیود اس کے اپنے تحفظ کے لیے نہیں ہیں، وہ ہر تحفظ سے بالاتر ہے، بلکہ یہ خلق کے تحفظ اور اس کی ترقی کے لیے ہیں اس وجہ سے مجرموں کا معاملہ خدا کا کوئی ذاتی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ اس کی ساری مخلوق کا معاملہ ہے۔ اپنی مخلوق کے ساتھ اس کی رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ کسی مجرم کو سزا دیے بغیر نہ چھوڑے گا۔ صفت رحمان کے ان تقاضوں کو سامنے رکھ کر اس سورة کو غور سے پڑھیے تب یہ حقیقت واضح ہوگی کہ اس میں جو تنبیہات یا بشارتیں وارد ہوئی ہیں سب خدا کی صفت رحمانیت پر مبنی ہیں۔
Top