Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 102
وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَیْمٰنَ١ۚ وَ مَا كَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ١ۗ وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَیْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ١ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى یَقُوْلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ١ؕ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ زَوْجِهٖ١ؕ وَ مَا هُمْ بِضَآرِّیْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ١ؕ وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىهُ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ١ؕ۫ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
وَ اتَّبَعُوْا : اور انہوں نے پیروی کی مَا تَتْلُوْ : جو پڑھتے تھے الشَّيَاطِیْنُ : شیاطین عَلٰى : میں مُلْكِ : بادشاہت سُلَيْمَانَ : سلیمان وَمَا کَفَرَ : اور کفرنہ کیا سُلَيْمَانُ : سلیمان وَلَٰكِنَّ : لیکن الشَّيَاطِیْنَ : شیاطین کَفَرُوْا : کفر کیا يُعَلِّمُوْنَ : وہ سکھاتے النَّاسَ السِّحْرَ : لوگ جادو وَمَا : اور جو أُنْزِلَ : نازل کیا گیا عَلَى : پر الْمَلَکَيْنِ : دوفرشتے بِبَابِلَ : بابل میں هَارُوْتَ : ہاروت وَ مَارُوْتَ : اور ماروت وَمَا يُعَلِّمَانِ : اور وہ نہ سکھاتے مِنْ اَحَدٍ : کسی کو حَتَّی : یہاں تک يَقُوْلَا : وہ کہہ دیتے اِنَّمَا نَحْنُ : ہم صرف فِتْنَةٌ : آزمائش فَلَا : پس نہ کر تَكْفُر : تو کفر فَيَتَعَلَّمُوْنَ : سو وہ سیکھتے مِنْهُمَا : ان دونوں سے مَا : جس سے يُفَرِّقُوْنَ : جدائی ڈالتے بِهٖ : اس سے بَيْنَ : درمیان الْمَرْءِ : خاوند وَ : اور زَوْجِهٖ : اس کی بیوی وَمَا هُمْ : اور وہ نہیں بِضَارِّیْنَ بِهٖ : نقصان پہنچانے والے اس سے مِنْ اَحَدٍ : کسی کو اِلَّا : مگر بِاِذْنِ اللہِ : اللہ کے حکم سے وَيَتَعَلَّمُوْنَ : اور وہ سیکھتے ہیں مَا يَضُرُّهُمْ : جو انہیں نقصان پہنچائے وَلَا يَنْفَعُهُمْ : اور انہیں نفع نہ دے وَلَقَدْ : اور وہ عَلِمُوْا : جان چکے لَمَنِ : جس نے اشْتَرَاهُ : یہ خریدا مَا : نہیں لَهُ : اس کے لئے فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں مِنْ خَلَاقٍ : کوئی حصہ وَلَبِئْسَ : اور البتہ برا مَا : جو شَرَوْا : انہوں نے بیچ دیا بِهٖ : اس سے اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ کو لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : کاش وہ جانتے ہوتے
اور ان چیزوں کے پیچھے پڑگئے جو سلیمان کے عہد حکومت میں شیاطین پڑھتے پڑھاتے تھے۔ حالانکہ سلیمان نے کوئی کفر نہیں کیا بلکہ شیطانوں ہی نے کفر کیا۔ یہی لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔ اور اس چیز میں پڑگئے جو بابل میں دونوں فرشتوں۔ ہاروت اور ماروت پر اتاری گئی تھی حالانکہ یہ کسی کو سکھاتے نہیں تھے جب تک اس کو خبردار نہ کردیں کہ ہم آزمائش کے لیے ہیں تو تم کفر میں نہ پڑجانا۔ پس یہ لوگ ان سے وہ علم سیکھتے جس سے میاں اور اس کی بیوی میں جدائی ڈال سکیں۔ حالانکہ یہ اس کے ذریعہ سے خدا کی مشیت کے بغیر کسی کو نقصان پہنچانے والے نہیں بن سکتے تھے اور یہ وہ چیز سیکھتے تھے جو ان کو نقصان پہنچائے حالانکہ ان کو پتہ تھا کہ جس نے اس چیز کو اختیار کیا آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ کیا ہی بری ہے وہ چیز جس کے بدلے میں انہوں نے اپنی جانوں کو بیچا اے کاش وہ اس کو سمجھتے
اللہ کی کتاب کو پیٹھ پیچھے پھینک کر جس چیز کو انہوں نے سینہ سے لگایا یہ اس کا بیان ہے۔ قرآن مجید شیاطین سے متعدد جگہ جنوں اور انسانوں دونوں گروہوں کے مفسدین اور اشرار مراد لیے گئے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہاں بھی دونوں ہی کے اشرار مراد ہیں۔ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ سے مقصود حضرت سلیمان ؑ کی بادشاہی کا زمانہ ہے۔ عربی زبان کے عام قاعدہ کے مطابق یہاں ایک مضاف محذوف ہے۔ یعنی علی عہد ملک سلیمان۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ان ظالموں نے کتاب الٰہی کو تو پیٹھ پیچھے ڈال دیا اور سحر و شعبدہ اور علم نجوم وغیرہ جیسے علوم سفلیہ کو جو سلیمان ؑ کے عہد حکومت میں جنوں اور ان کی پیروی کرنے والے انسانوں کے باہمی اشتراک سے رواج پائے، اس کی جگہ اختیار کرلیا۔ سحر و ساحری اور اس قسم کے سفلی اور شیطانی علوم کا چرچا کچھ نہ کچھ تو ہر دور میں رہا ہے لیکن حضرت سلیمان ؑ کے زمانہ میں معلوم ہوتا ہے، ان کے روحانی علوم کے مقابلہ کے شوق میں، شیاطین جن و انس کے ایک طبقہ میں سحر و ساحری کے سیکھنے سکھانے کا رواج بہت بڑھ گیا تھا اور ان مفسدین نے اپنے ان علوم کو مرتب و مدون بھی کر ڈالا تھا۔ بعد کے زمانوں میں جب یہود دینی و اخلاقی انحطاط میں مبتلا ہوئے اور کتاب و شریعت کا ذوق ان کے اندر مردہ ہوا تو قدرتی طور پر اس طرح کی مزخرفات کے سیکھنے سکھانے میں ان کا انہماک بہت بڑھ گیا۔ 1؎۔ اور جیسا کہ قاعدہ ہے ان چیزوں کو تقدس کا رنگ دینے کے لیے وہ ان کو براہ راست حضرت سلیمان ؑ کی طرف منسوب بھی کرتے رہے ہوں گے اور لوگوں کو ان کا گرویدہ بنانے کے لیے یہ دعوی بھی کرتے رہے ہوں گے کہ حضرت سلیمان ؑ انہیں علوم کے ذریعہ سے وہ کارنامے انجام دیتے رہے ہیں جو ان کی طرف منسوب ہیں۔ آج بھی جو لوگ ان سفلی چیزوں کا ذوق رکھتے ہیں وہ اپنی ان خرافات کی تائید میں حضرت سلیمان ؑ کا حوالہ بہت دیتے ہیں۔ بعض نقش تو خاص ان کے نام نامی ہی سے منسوب بھی ہیں۔ اس طرح کی ساری چیزوں معلوم ہوتا ہے یہود ہی کے ذریعہ سے ہمارے ہاں منتقل ہوئی ہیں اور یہ اسی دفتر ظلالت کے باقیات سیئات میں سے ہیں جس کو حضرت سلیمان ؑ کے عہد حکومت میں اشرار جن و انس نے مرتب کیا اور جس کو بعد میں یہود نے فروغ دیا۔ 1؎ سلاطین باب 17: 16-17 میں اسرائیل اور یہود، دونوں کا حال اس طرح بیان ہوا ہے ”اور انہوں نے خداوند اپنے خدا کے سب احکام ترک کر کے اپنے ڈھالی ہوئی مورتیں یعنی دو بچھڑے بنا لیے اور یسرت تیار کی اور آسمانی فوج کی پرستش کی اور بعل کو پوجا اور انہوں نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو آگ میں چلوایا اور فال گیری اور جادوگری سے کام لیا“۔ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمٰنُ وَلٰكِنَّ الشَّيٰطِيْنَ كَفَرُوْا يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ یہ جملہ بطور استدراک یا بطور ایک جملہ معترضہ کے ہے۔ سلسلہ کلام کے بیچ میں حضت سلیمان ؑ کو یہود کے لگائے ہوئے الزام سے بری کرنے کے لیے فرمایا کہ سلیمان کا دمن ان علوم سفلیہ کی آلودگیوں سے بالکل پاک ہے، اس نے اس کفر کا ارتکاب کبھی نہیں کیا۔ البتہ یہ شیاطین جن و انس ہیں جنہوں نے ان چیزوں کو اختیار کیا اور پھر لوگوں کو ان مزخرفات کی تعلیم دی۔ یہاں اسلوب کلام سے متعلق دو باتیں ذہن میں رکھنے کی ہیں۔ ایک تو اس جملہ معترضہ کی بلاغت کہ اس کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ متکلم کو ان علوم سفلیہ کی نسبت حضرت سلیمان ؑ کی طرف اتنی ناگوار ہے کہ اس کی تردید کے معاملہ میں اس نے اتنا توقف بھی نہیں کیا کہ بات پوری ہولے۔ بلکہ سلسلہ کلام کو روک کر فورا اس کی تردید ضروری سمجھی۔ دوسری یہ کہ تردید ایسے اسلوب سے شروع کی ہے جس سے یہ بات آپ سے آپ نکلتی ہے کہ سحر کا کفر ہونا ایک ایسی واضح حقیقت ہے کہ اس کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ : اوپر والا جملہ، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، بطور استدراک یا جملہ معترضہ کے ہے، اس وجہ سے اس جملہ کا عطف لازماً مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ پر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک تو انہوں نے ان علوم سفلیہ کی پیروی کی جو سلیمان کے عہد حکومت میں شیاطین کے ذریعہ سے رواج پائے۔ دوسرے اس چیز کی پیروی کی جو بابل کی اسیری کے زمانہ میں دو فرشتوں ”ہاروت و ماروت“ پر اتاری گئی۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان فرشتوں پر کیا چیز اتاری گئی تھی، اس سوال کا جواب عام طور پر مفسرین نے یہ دیا ہے کہ یہ جادو کا علم ہے۔ لیکن یہ جواب کئی پہلوؤں سے کھٹکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ اس کا عطف، جیسا کہ ہم نے عرض کیا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُپر ہے جس سے مراد خود قرآن کی تشریح کے مطابق جادو ہے۔ اب اگر اس سے بھی مراد جادو ہی ہے تو اس کے علیحدہ ذکر کرنے کا کوئی خاص فائدہ نہ ہوا۔ عربی زبان میں جب اس طرح معطوف اور معطوف علیہ آئیں تو عام اصول کے مطابق ان میں ایک حد تک مغایرت ہونی چاہیے۔ بغیر کسی خاص قرینہ کے اہل زبان اس عام ضابطہ کی خالف ورزی نہیں کرتے یہاں دونوں کے ایک ہی چیز ہونے کا نہ صرف یہ کہ کوئی قرینہ موجود نہیں ہے بلکہ قرائن اس کے خلاف ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس کے لیے ”انزل“ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا واضح مفہوم یہی سمجھ میں آتا ہے کہ یہ علم اللہ تعالیٰ کا اتارا ہوا تھا۔ اس لفظ میں عنایت اور افادیت کی جو شان ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے سحر جیسی شیطانی، ناپاک اور سراسر باطل بلکہ کفریہ چیز کے لیے اس کا استعمال ذوق پر گراں گزرتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں ہے کہ قرآن مجید میں یہ لفظ چوپایوں اور لوہے وغیرہ جیسی چیزوں کے پیدا کیے جانے کے لیے بھی استعمال ہوا ہے لیکن محض اتنی بات جادو کے لیے اس لفظ کی موزونیت ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ لوہا اور چوپائے وغیرہ تمدنی اور معاشی نقطہ نظر سے ہمارے لیے نہایت خیر و برکت کی چیزیں ہیں اس وجہ سے ان کے لیے تو اس کا استعمال سمجھ میں آتا ہے لیکن ہمارے علم میں قرآن میں کہیں بھی یہ لفظ کسی ایسی چیز کے لیے استعمال نہیں ہوا ہے جو جادو کی طرح کفریہ اور شیطانی ہو۔ کفار پر عذاب الٰہی نازل کرنے کے لیے بھی اس کا استعمال ہوا ہے لیکن کفار پر جو عذاب آتا ہے وہ اہل ایمان کے لیے رحمت ہوتا ہے اور اس سے خدا کی زمین کی تطہیر ہوتی ہے۔ ہمیں اس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ خیر ہو یا شر دنیا میں جو چیز بھی پائی جاتی ہے خدا کی مشیت ہی کے تحت پائی جاتی ہے۔ لیکن خدا کی مشیت کے تحت کسی باطل کو مہلت ملنا اور چیز ہے اور سحر جیسے شیطانی علم کا دو فرشتوں پر اتارا جانا بالکل دوسری چیز ہے۔ تیسرا یہ کہ یہ علم، جیسا کہ الفاظ قرآن سے واضح ہے، دو فرشتوں پر اتارا گیا تھا۔ اور یہ فرشتے لوگوں کو اس علم کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ فرشتوں کے متعلق یہ بات مسلم ہے کہ شرک و کفر کی ہر آلائش سے ان کے دامن پاک ہیں۔ ان کے مزاج اللہ تعالیٰ نے ایسے بنائے ہیں کہ اس طرح کی کسی گندگی کی ان کو کبھی چھوت بھی نہیں لگتی۔ فرشتے ہمیشہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق و عدل کے قیام اور خیر و فلاح کی دعوت وتعلیم کی ذریعہ بنے ہیں اور یہی چیزیں ان کے شایانِ شان ہیں۔ اس وجہ سے جادو کے علم کا ان پر اترانا اور ان کا اس کی اشاعت کرنا (اگرچہ کتنی ہی احتیاط کے ساتھ کیوں نہ ہو) عقل سے بعید بات ہے۔ اگر فرشتے اس طرح کے کام کرنے لگ جائیں تو پھر شیاطین کے لیے کیا کام باقی رہ جائے گا۔ چوتھا یہ کہ فرشتوں نے اپنے اس علم کے لیے جو الفاظ استعمال کیے ہیں ان سے بھی کچھ ایسا ہی مترشح ہوتا ہے کہ ان کا علم شیاطین کے سحر سے کچھ مختلف خصوصیات رکھتا تھا۔ شیاطین کا علم تو جیسا کہ قرآن مجید نے خود وضاحت کردی ہے، یکسر کفر تھا لیکن فرشتوں نے اپنے علم کے لیے فتنہ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ فتنہ کے معنی امتحان اور آزمائش کے ہیں۔ قرآن میں اس سے عموما وہ چیزیں مراد لی گئی ہیں جو پیدا تو کی گئی ہیں اصلاً انسان کی نفع و بہبود کے لیے لیکن انسان اپنے استعمال کی غلطی سے یا ان کی حد سے بڑھی ہوئی محبت میں گرفتار ہو کر ان کو اپنے لیے فتنہ بنا لیتا ہے۔ جس کے سبب سے وہ مفید ہونے کے بجائے مضر بلکہ مہلک بن کر رہ جاتی ہیں۔ مثلاً مال اولاد کو قرآن مجید میں فتنہ کہا گیا ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ یہ دونوں چیزیں بجائے خود شر نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں، اگر انسان ان کے صحیح مقام کو پہچانے تو یہ اس کے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں نفع پہنچانے والی بن سکتی ہیں لیکن جب انسان ان کی بےجا محبت میں گرفتار ہو کر ان کے پیچھے خدا اور آخرت سے غافل ہوجاتا ہے تو یہی چیز اس کے لیے وبال اور عذاب بن کے رہ جاتی ہیں کیونکہ بعض حالات میں آدمی کو ان کی محبت کفر تک پہنچا کے چھوڑتی ہے۔ یہ سارے پہلو اس بات کے خلاف ہیں کہ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ سے جادو مراد لیا جائے لیکن اگر جادو نہ مراد لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ وہ کون سا علم ہے جس کا فرشتوں پر اترنا موزوں بھی ہو اور جس کے انہماک یا غلط استعمال سے وہ خرابیاں بھی پیدا ہوسکتی ہوں جو یہاں اس علم میں بیان کی گئی ہیں مثلاً یہ کہ اس کا انہماک کتاب اللہ سے برگشتہ کرتا ہو، اس کی نوعیت ایک فتنہ کی ہو جس کے غلط استعمال سے آدمی کفر میں پڑ سکتا ہو، اس کو بدطینت لوگ میاں اور بیوی کے تعلقات کو خراب کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہوں۔ ہمارے نزدیک اس سے مراد اشیا اور کلمات کے روحانی خواص و تاثیرات کا وہ علم ہے جس کا رواج یہود کے صوفیوں اور پیروں میں ہوا اور جس کو انہوں نے گنڈوں، تعویذوں اور مختلف قسم کے عملیات کی شکل میں مختلف اغراض کے لیے استعمال کیا۔ مثلاً بعض امراض یا تکالیف کے ازالہ کے لیے یا نظر بد اور جادو وغیرہ کے برے اثرات دور کرنے کے لیے یا شعبدہ بازوں وغیرہ کے فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے یا محبت اور نفرت کے اثرات ڈالنے کے لیے۔ یہ علم اس اعتبار سے جادو اور نجوم وغیرہ کے علم سے بالکل مختلف تھا کہ اس میں نہ تو شرک کی کوئی ملاوٹ تھی اور نہ اس میں شیطان اور جنات کو کوئی دخل تھا لیکن اپنے اثرات و نتائج کے پیدا کرنے میں یہ جادو ہی کی طرح زود اثر تھا۔ ممکن ہے بنی اسرائیل کو یہ علم بابل کے زمانہ اسیری میں دو فرشتوں کے ذریعہ سے اس لیے دیا گیا ہو کہ اس کے ذریعہ سے بابل کی سحر و ساحری کا مقابلہ کرسکیں اور اپنی قوم کے کم علموں اور سادہ لوحوں کو جادوگروں کے رعب سے محفوط رکھ سکیں۔ اس بات کی طرف ہمارا ذہن دو وجہ سے جاتا ہے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ بابل میں سحر و ساحری اور نجوم کا بڑا زور تھا۔ 1؎۔ دوسری یہ کہ یہ بات سنت اللہ کے موافق معلوم ہوتی ہے کہ اگر کسی جگہ ایک غلط علم کا رعب اور زور ہو، جس سے مفسد لوگ فائدہ اٹھا رہے ہوں تو وہاں اللہ تعالیٰ اس کے مقابلہ کے لیے اہل ایمان کو کوئی ایسا علم بھی عطا فرمائے جو جائز اور نافع ہو۔ 1؎ : یسعیاہ نبی بابل سے خطاب کر کے فرماتے ہیں : تیرے جادو کی کثرت اور تیرے سحر کی افراط کے باوجود یہ مصیبتیں پورے طور سے تجھ پر آپڑیں گی۔ تجھ پر مصیبت آپڑے گی جس کا منتر تو نہیں جانتی۔ اب اپنا جادو اور اپنا سحر جس کی تو نے بچپن ہی سے مشق کر رکھی ہے استعمال کر۔ اب افلاک پیما اور منجم اور وہ جو ماہ بماہ آئندہ حالات دریافت کرتے ہیں اٹھیں اور جو کچھ تجھ پر آنے والا ہے اس سے تجھ کو بچائیں۔ (یسعیاہ 47: 8-13) هَارُوتَ وَمَارُوتَ : قرآن سے واضح ہے کہ خدا کے دو فرشتے تھے اس وجہ سے تفسیر کی کتابوں میں ان کے متعلق جو فضول سا قصہ منقول ہے، وہ ہمارے نزدیک بالکل ناقابل التفات ہے۔ وہ ملکوتی صفات ہی کے ساتھ دنیا میں بھیجے گئے تھے اور ملکوتی صفات کے ساتھ ہی یہاں رہے۔ ان کا علم بھی جیسا کہ عرض کیا گیا، ایک جائز اور مفید علم تھا لیکن یہود نے اپنے اخلاق کی پستی اور مذاق کی خرابی کی وجہ سے اس کو بری نیت سے سیکھا اور برے مقاصد ہی میں استعمال کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ علم بھی ان کے ہاں سحر و ساحری کا ایک ضمیمہ بن کے رہ گیا اور اس کی دلچسپیوں میں وہ ایسا کھوئے گئے کہ کتاب اللہ سے اول تو انہیں کوئی تعلق ہی باقی نہیں رہ گیا اور اگر رہا بھی تو محض عملیات اور تعویذوں کی حد تک کہ فلاں آیت کے پھونکنے سے یہ فائدہ ہوا کرتا ہے اور فلاں آیت کے تعویذ سے یہ اثر پڑتا ہے۔ ممکن ہے یہاں کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ کیا اس طرح کا علم دنیا میں اپنا کوئی وجود بھی رکھتا ہے تو اس کے جواب میں ہماری گزارش یہ ہے کہ اس کا انکار ایک بالکل بدیہی بات کا انکار ہے۔ اگرچہ میں خود اس طرح کے کسی علم کا کبھی عامل نہیں بنا لیکن متعدد بار میرے اپنے تجربہ میں ایسی باتیں آئی ہیں جن کے بعد میرے لیے اس جز کا انکار ممکن نہیں رہا۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ اسی علم کے باقیات ہیں جن کو ہمارے صوفیوں اور پیروں کے ایک طبقہ نے اپنایا اور اس سے انہوں نے لوگوں کو فائدہ بھی پہنچایا بلکہ واقعات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض حالات میں اس کی مدد سے انہوں نے جوگیوں اور جوتشیوں وغیرہ کے مقابل میں اسلام اور مسلمانوں کی برتری بھی ثابت کی لیکن اخلاقی زوال کے بعد جس طرح یہود کے ہاں یہ علم، علوم سفلیہ کا ایک ضمیمہ اور دکانداری کا ایک ذریعہ بن کے رہ گیا اسی طرح ہمارے یہاں بھی یہ صرف پیری مریدی کی دکان چلانے کا ذریعہ بن کر رہ گیا۔ اور حق سے زیادہ اس میں باطل کے اجزا شامل ہوگئے جس کے سبب سے لوگ پر اس کے اثرات بھی وہی پڑے جو قرآن نے بیان فرمائے۔ فرشتوں کی طرف سے تعلیم سے پہلے تنبیہ : وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلا تَكْفُرْ : جس طرح ”وما کفر سلیمان“ والا ٹکڑا بطور جملہ معترضہ کے حضرت سلیمان ؑ کی بریت کے لیے وارد ہوا ہے اسی طرح یہ ٹکڑا بطور استدراک ان فرشتوں کی بریت کے لیے وارد ہوا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ یہ اپنے اس علم کا اگر کسی پر انکشاف کرتے تو ساتھ ہی اس کو یہ تنبیہ بھی ضرور کردیتے کہ دیکھو، ہمارا یہ علم ایک فتنہ ہے تو تم اس کو برے مقاصد میں استعمال کر کے کفر میں نہ پڑجانا بلکہ اس کو صرف اچھے مقاصد ہی میں استعمال کرنا۔ فتنہ کا مفہوم : فتنہ کے مفہوم کی طرف ہم اوپر اشارہ کر آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی تمام دنیوی نعمتیں، بیوی بچے، مال و جاہ، اقتدار اور سلطنت وغیرہ دو دھاری تلوار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انسان اگر ان سے صحیح کام لے تو یہ اس کے لیے نعمت ہیں اور اگر ان کی وجہ سے فتنہ میں پڑجائے تو یہ اس کے لیے عذاب بن جایا کرتی ہیں۔ اسی طرح یہ علم بھی مضرت اور منفعت کے دونوں پہلو اپنے اندر رکھتا ہے۔ اس کو لوگوں کی خدمت میں استعمال کر کے اس سے ثواب بھی کمایا جاسکتا ہے اور اس کو انتشار اور تفریق کا ذریعہ بنا کر اس سے گمراہی اور ہلاکت کا سامان بھی مہیا کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ انسان اپنی کمزوریوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی قتوں کو زیادہ تر غلط ہی استعمال کرتا ہے اس وجہ سے فرشتوں نے ایک خیر خواہ معلم کی طرح اپنے سے ہر ربط پیدا کرنے والے کو پہلے سے آگاہ کردیا کہ ہمارا علم ایک شمشیر دوم کی حیثیت رکھتا ہے، کوئی اس کو سیکھ کر اس کو برے مقاصد میں نہ استعمال کرے ورنہ اس طرح وہ کفر و شرک میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ یہاں فرشتوں کے تعلیم دینے کے معاملہ کو اس طرح بیان فرمایا ہے جس سے بادی النظر میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگوں کو انسانی روپ میں تعلیم دیتے تھے۔ اگر یہ بات ہو تو اس میں کوئی خاص اشکال نہیں ہے۔ متعدد ایسے واقعات کا خود قرآن سے پتہ چلتا ہے جب فرشتے انسانوں کے اندر خود انسانوں کی شکل و صورت میں نمایاں ہوئے ہیں لیکن امکان اس بات کا بھی ہے کہ عملیا کے دلدادہ لوگ کسی خاص قسم کی ریاضت اور چلہ کشی کے ذریعہ سے ان سے روحانی قسم کا ربط پیدا کر کے یہ تعلیم حاصل کرتے رہے ہوں۔ اگر مطلب یہ لیا جائے تو قرآن کے الفاظ میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اس کے خلاف جاتی ہو۔ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ۔ یہود کی پست مذاقی۔ یعنی فرشتوں کی مذکورہ بالا تنبیہ کے باوجود لوگ خاص طور پر ان سے ان عملیات کی تعلیم حاصل کرتے تھے جن کے ذریعے سے شوہر اور اس کی بیوی میں جدائی ڈال سکیں۔ اس ٹکڑے سے یہود کے فساد اخلاق اور ان کی پست ہمتی اور دنائت پر روشنی پڑتی ہے کہ ان کی سب سے زیادہ رغبت اس عمل سے تھی جس کو کسی میاں بیوی کے رشتہ محبت کو قطع کرنے کے یے بطور مقراض استعمال کرسکیں۔ حالانکہ میاں بیوی کے رشتہ کے استحکام پر پورے نظام تمدن کے استحکام کی بنیاد ہے۔ اگر کوئی مذہبی جماعت اپنے علم کو اس بنیاد کے اکھاڑنے میں لگا دے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے شیطان کے کرنے کا جو کام تھا اس کو خود سنبھال لیا۔ جو علم اس مقصد کے لیے استعمال کیا جائے اس سے معاشرے کے صرف غنڈوں اور بدمعاشوں ہی کو نفع پہنچ سکتا ہے اور محبت و نفرت پیدا کرنے کے علم کا اس سے زیادہ مہلک استعمال کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ اس سے صحیح کام بھی لیا جاسکتا ہے جس سے لوگوں کو نفع پہنچ سکتا ہے۔ وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلا بِإِذْنِ اللَّهِ : یہ ٹکڑا بھی بطور استدراک کے ہے یعنی ان عملیات کے شائقین یہ سمجھتے ہیں کہ یہ چیزیں بجائے خود نافع اور ضار ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ اعمال شیطانیہ ہوں یا اعمال روحانیہ، ان سے اگر کسی کو نفع یا ضرر پہنچتا ہے یا پہنچایا جاسکتا ہے تو صرف اللہ کے اذن، اور اس کی مشیت کے تحت یہ چیزیں بذات خود مؤثر نہیں ہیں۔ اس استدراک سے اس توحید و اخلاص کو اجاگر کیا گیا ہے جو قرآن کی تمام تعلیمات کی بنیاد ہے۔ ایک موحد کو اس سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ اللہ کی کتاب کے ہوتے ہوئے اول تو وہ اس طرح کی چیزوں کی رغبت ہی نہ کرے ثانیا اگر ان میں سے کوئی چیز اس کے علم میں آئے تو اس کو مؤثر بالذات نہ مانے۔ نیز اگر اس طرح کی کسی چیز سے اس کو ضرر کا اندیشہ لاحق ہو تو صرف اللہ واحد ہی کی طرف مدد کے لیے رجوع کرے، ٹونوں، ٹوٹکوں اور عاملوں اور سیانوں کے چکر میں نہ پھنسے۔ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلا يَنْفَعُهُمْ۔ یہ ٹکڑا سیکھنے والوں کی اخلاقی اور ذہنی پستی کو ظاہر کر رہا ہے۔ جو علم وہ سیکھتے تھے وہ بجائے خود تو جیسا کہ ظاہر ہوا اپنے اندر نفع و نقصان دونوں کے پہلو رکھتا تھا لیکن سیکھنے والوں کی ذہنیت وہی ہوتی تھی جو اوپر مذکور ہوئی کہ اس کے ذریعے سے کسی جوڑے کے درمیان تفریق کرائیں، جن میں الفت ہے ان کے درمیان نفرت کے بیج بوئیں، جن میں وصل ہے ان میں فصل پیدا کریں۔ اپنے اس فساد نیت کی وجہ سے انہوں نے اس کے نفع کے کے پہلو کو بالکل ہی ختم کردیا تھا۔ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاقٍ۔ یعنی یہود کو اچھی طرح معلوم تھا کہ جو لوگ اس طرح کے فتنوں میں پڑیں گے آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔ تورات میں نہایت واضح الفاظ میں انہیں ان چیزوں سے روک دیا گیا تھا۔ استثناء باب 18 آیات 9 تا 12 ملاحظہ ہوں۔ ”جب تو اس ملک میں جو خداوند تیرا خدا تجھ کو دیتا ہے پہنچ جائے تو وہاں کی قوموں کی طرح مکروہ کام کرنے نہ سیکھنا۔ تجھ میں ہرگز کوئی ایسا نہ ہو جو اپنے بیٹے یا بیٹی کو آگ میں چلوائے یا فال گیر یا شگون نکالنے والا یا افسوں گر یا جادوگر یا منتری یا جنات کا آشنا یا رما یا ساحر ہو کیونکہ وہ سب جو ایسے کام کرتے ہیں خدا کے نزدیک مکروہ ہیں اور اور انہی مکروہات کے سبب سے خداوند تیرا خدا تیرے سامنے سے ان کو نکالنے پر ہے“۔ حضرت موسیٰ ؑ کی ان واضح تنبیہا کے باوجود یہود نے ان ساری چیزوں کو اختیار کیا اور ان کا ذوق ان کے اندر اس قدر بڑھ گیا کہ طالوت کو اپنے زمانہ میں پوری قوم کی تطہیر کرنی پڑی۔ چناچہ سموئیل کے باب 28-3 میں ہے۔ ’ اور ساؤل نے جنات کے آشناؤں اور افسوں گروں کو ملک سے خارج کردیا تھا“۔
Top