Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 11
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ
وَ إِذَا : اور جب قِيلَ : کہاجاتا ہے لَهُمْ : انہیں لَا تُفْسِدُوا : نہ فسا دپھیلاؤ فِي الْأَرْضِ : زمین میں قَالُوْا : وہ کہتے ہیں اِنَّمَا : صرف نَحْنُ : ہم مُصْلِحُوْنَ : اصلاح کرنے والے
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پیدا کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے لوگ ہیں
لَا تُفْسِدُوا فِي الأرْضِ: فساد فی الارض قرآن مجید کی ایک اصطلاح ہے جس کا مفہوم اس نظام حق کو بگاڑنا یا اس کو بگاڑنے کی کوشش کرنا ہے جو اللہ واحد کی عبادت اور اس کے احکام و قوانین کی اطاعت پر مبنی ہوتا ہے اور جس کی دعوت انبیائے کرام علیہم السلام لے کر آتے ہیں۔ قرآن کا دعویٰ یہ ہے کہ جس طرح اس کائنات کا نظام تکوینی اس وجہ سے قائم ہے کہ اس کے اندر ایک ہی رب قدیر و قہار کا ارادہ کارفرما ہے، اگر اس کے اندر کسی اور کا زور و اختیار بھی چلتا ہوتا تو یہ آن کے آن میں درہم برہم ہو کے رہ جاتا اسی طرح اس کے نظام تشریعی کے اندر اگر کسی اور کی عبادت و اطاعت کے جواز یا دخل کو تسلیم کر لیا جائے تو اس سے اس کا مزاج بالکل ہی بگڑ کے رہ جاتا ہے۔اور یہ بگاڑ سارے نظام تمدن کو خراب کر کے رکھ دیتا ہے۔ اس وجہ سے ہر وہ کوشش قرآن کے نزدیک فساد فی الارض کے حکم میں داخل ہے جو اس بگاڑ کا دروازہ کھولے اگرچہ یہ کوشش بہ ظاہر اصلاح کے نیک ارادہ ہی کے ساتھ کیوں نہ کی جائے۔
Top