Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 125
وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا١ؕ وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى١ؕ وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَ الْعٰكِفِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ
وَاِذْ : اور جب جَعَلْنَا : ہم نے بنایا الْبَيْتَ : خانہ کعبہ مَثَابَةً : اجتماع کی جگہ لِلنَّاسِ : لوگوں کے لئے وَاَمْنًا : اور امن کی جگہ وَاتَّخِذُوْا : اور تم بناؤ مِنْ : سے مَقَامِ : مقام اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم مُصَلًّى : نماز کی جگہ وَعَهِدْنَا : اور ہم نے حکم دیا اِلٰى : کو اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم وَاِسْمَاعِيلَ : اور اسماعیل اَنْ طَهِّرَا : کہ پاک رکھیں بَيْتِيَ : وہ میرا گھر لِلطَّائِفِينَ : طواف کرنے والوں کیلئے وَالْعَاكِفِينَ : اور اعتکاف کرنے والے وَالرُّکَعِ : اور رکوع کرنے والے السُّجُوْدِ : اور سجدہ کرنے والے
اور یاد کرو، جب کہ ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن کی جگہ بنایا اور حکم دیا کہ مسکن ابراہیم میں ایک نماز کی جگہ بناؤ اور ابراہیم اور اسمعیل کو ذمہ دار بنایا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع، سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو
‘ بیت ‘ سے مراد بیت اللہ ہے : بیت سے مرد بیت اللہ یعنی خانہ کعبہ ہے۔ قرآن مجید میں اس شکل میں یہ لفظ خانہ کعبہ ہی کے الیے استعمال ہوا ہے۔ تورات کی کتاب پیدائش باب 12 میں اس کو بیت ایل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ایل عبرانی میں اللہ کو کہتے ہیں۔ ‘ مثابۃ ’ کا مفہوم : مثابۃ کے معنی مرکز و مرجع کے ہیں، جس کی طرف سب رجوع کریں، جس کے ساتھ سب وابستہ ہوں، جو سب کا مرکز اور سب کا قبلہ ہو۔ ‘ للناس ’ سے مراد :“ للناس ”سے یہاں مراد وہی لوگ ہیں جن کا ذکرانِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا میں ہوا ہے۔ یعنی وہ تمام ذریت ابراہیم جس کی امامت و پیشوائی حضرت ابراہیم ؑ کو حاصل ہوئی عام اس سے کہ وہ حضرت اسحاق کی نسل سے ہوں یا حضرت اسماعیل کے سلسلہ سے ہوں۔ جس طرح حضرت ابراہیم ؑ کو ان کی تمام ذریت کا پیشوا بنانے کا فیصلہ کیا گیا اسی طرح یہ فیصلہ بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ خدا کی عبادت کے لیے جو گھر وہ بنائیں گے وہ تمام ذریت ابراہیم کا مرکز اور قبلہ ہوگا اور پھر ذریت اسماعیل کے واسطہ سے، جیسا کہ آگے ذکر آ رہا ہے، تمام دنیا کی قومیں اس گھر کی برکتوں میں سے حصہ پائیں گی۔ خانہ کعبہ کا ذکر تورات میں : استاذ امام مولانا فراہی اس مسئلہ میں اپنی تحقیق یہ بیان فرماتے ہیں۔ تورات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود کو شروع ہی سے یہ حکم ملا تھا کہ وہ اپنی بڑی قربانیوں کا قبلہ مکہ معظمہ کی سمت کو قرار دیں۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ قربانی کے لیے ضروری تھا کہ وہ معبد میں خداوند کے حضور پیش کی جائے۔ فصل دوم حرف ی میں ہم بتاچکے ہیں کہ جس قربانی کا نام ان کے ہاں قدس الاقدس تھا اس کا رخ جنوب کی طرف ہونا ضروری تھا۔ اسی طرح سالانہ قربانی جو ان کے ہاں سب سے بڑی قربانی خیال کی جاتی تھی اس کا رخ بھی جانب جنوب ہی ہوتا۔ یہود یا تو اس معاملہ کے اصلی راز سے بیخبر تھے جیسا کہ فصل دوم حرف ی میں ہم اس کی طرف اشارہ کرچکے ہیں یا انہوں نے بالقصد اس معاملہ کو کریدنا نہیں چاہا۔ بلکہ اپنی عادت کے مطابق چاہا کہ اس پر پردہ ہی پڑا رہے۔ مصلحت نیست کہ از پر دوہ بروں افتد راز۔ حالانکہ یہ بات پوری قطعیت کے ساتھ ثابت ہے کہ ان کے خیمہ عبادت کا رخ ابتدا سے جانب شمال تھا۔ دیکھو سفر خروج 27 : 9۔ مسکن کا گھر جنوب کی جانب برکت حاصل کرنے کے رخ پر بنایا جائے۔ نیز اسی سفر خروج کے باب 40 آیت 21-42 میں ہے۔“ اور میز کو اس پردے کے باہر مسکن کی شمالی سمت میں خیمہ اجتماع کے اندر رکھا اور اسی پر خداوند کے حضور روٹی سجا کر رکھی جیسا کہ خداوند نے موسیٰ کو حکم کیا تھا اور خیمہ اجتماع کے اندر ہی میز کے سامنے مسکن کی جنوبی سمت میں شمعدان رکھا“۔ ہمارے نزدیک اس ساری ترتیب کا اصلی فلسفہ یہ ہے کہ جو شخص خداوند کے حضور آئے اس کا رخ جانب جنوب یعنی مکہ معظمہ اور ابراہیمی قربان گاہ کی طرف ہو۔ اس کا مزید تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ خیمہ کے اندر مسکن مقدس بھی جنوب ہی کی سمت میں تھا اور مذبح اس کے سامنے دروازے کی طرف تھا۔ اس لیے جو شخص وہ قربانی پیش کرتا جس کو قدس الاقد اس کہتے ہیں وہ مذبح کے شمالی جانب کھڑا ہوتا تاکہ اس کا رخ مسکن ربانی کی طرف ہوسکے جس کے معنی یہ تھے کہ اس کا رخ لازماً خانہ کعبہ کی طرف ہوتا جس کے پاس ہی مروہ ہے جس کو اولین قربان گاہ ہونے کی عزت حاصل ہے اور اس کے پاس ہی مسکن اسماعیل بھی ہے“ (ملاحظہ ہو رسالہ ذبیح فصل 15)۔ اس تفصیل سے واضح ہوا کہ جس طرح ہماری نمازوں اور قربانیوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہے اسی طرح ابتداء ہی سے حضرت ابراہیم ؑ کی تمام ذریت کی عبادت وقربانی کا قبلہ بھی خانہ کعبہ ہی کو قرار دینے کا فیصلہ ہوا تھا۔ چناچہ اسی رخ پر ان کا خیمہ عبادت بھی تھا اور پھر بعد میں اسی رخ پر بیت المقدس کی بھی تعمیر ہوئی، لیکن یہود نے محض تعصب کی وجہ سے اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔ آگے اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے مولانا فراہی فرماتے ہیں۔“ ہمارے مذکورہ دعاوی کی مزید تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل ؑ کے مسکن کو تمام ذریت ابراہیم کا قبلہ قرار دیا۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی اولاد کو عرب کے مشرق اور شمال میں آباد کیا اور ان کا قبلہ حضرت اسماعیل کے مسکن کو قرار دیا۔ چناچہ تورات سے ثابت ہے کہ ان کو ان کے تمام بھائیوں کے آگے بسایا ”۔ پیدائش 18-25 میں ہے۔ ”اور اس کی اولاد حویلہ سے شور تک جو مصر کے سامنے اس راستے پر ہے جس سے اسور کو جاتے ہیں، آباد تھی۔ یہ لوگ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بسے ہوئے تھے ”۔ اور پیدائش 16 : 12 میں ہے۔ ”وہ گور خر کی طرح آزاد مرد ہوگا اس کا ہاتھ سب کے خلاف اور سب کے ہاتھ اس کے خلاف ہوں گے اور وہ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بسا رہے گا ”۔ “ سب بھائیوں کے سامنے بسنے ”کی جو تاویل ہم نے کی ہے، اس کے سوا اس کی کوئی دوسری صحیح تاویل ممکن نہییں ہے کیونکہ معلوم ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کی تمام اولاد ماسوا بنی اسماعیل کے مشرق و شمال میں آباد ہوئی۔ پس حضرت اسمعایل ان سب کے سامنے اسی وقت ہوسکتے ہیں جب یہ مانا جائے کہ ان کی بستی ان سب کے قبلہ کے سمت میں تھی۔ ہمارے نزدیک اس بات کو ماننے میں کسی تردد کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لیے کہ یہ معلوم ہے کہ حضرب ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے سب کا امام بنایا تھا اور ان کے بعد اس امامت کے وارث حضرت اسماعیل ہوئے۔ قرآن مجید نے اس معاملہ کی طرف بعض اشارات کیے ہیں۔ (آگے موالانا نے وہی آیت نقل فرمائی ہے جو یہاں زیر بحث ہے۔ ملاحظہ ہو مولانا فراہی کا رسالہ ذبیح فصل 16۔ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى (اور مسکن ابراہیم کے ایک حصہ میں نماز کی ایک جگہ بناؤ)۔ یہاں آیت میں مقام ابراہیم کا لفظ آیا ہے۔ مقام سے کیا مراد ہے ؟ علمائے تفسیر سے اس بارے میں دو قول منقول ہیں۔ ایک گروہ کے نزدیک اس سے مراد وہ پتھر ہے جس کے متعلق یہ مشہور ہے کہ حضرت ابراہیم نے اس پر کھڑے ہو کر خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی۔ دوسرے گروہ کے نزدیک اس سے مراد حرم کا پورا علاقہ ہے۔ اس گروہ نے مقام کے لفظ کو کسی مخصوص کھڑے ہونے کی جگہ کے بجائے مسکن و مستقر کے مفہوم میں لیا ہے۔ (اس گروہ میں ابن عباس، مجاہد اور عطا جیسے اکابر علم تفسیر شامل ہیں) ہمارے نزدیک یہی تاویل صحیح ہے۔ اس تاویل میں وسعت و جامعیت کے ساتھ ساتھ خاص اہمیت رکھنے والا پہلو یہ ہے کہ نظم کلام کے اعتبار سے یہ اس مقصد کو زیادہ واضح کرنے والی ہے جس کے لیے یہ بات یہاں کہی گئی ہے۔ یہاں یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ یہی گھر تمام اولاد ابراہیم کا قبلہ رہا ہے اس لیے کہ یہی گھر ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں حضرت ابراہیم نے سب سے پہلے اپنے اس مستقر میں تعمیر کیا جس میں ہجرت کے بعد انہوں نے حضرت اسماعیل کے ساتھ سکونت اختیار کی۔ ہمارے اور یہود کے درمیان نزاعی مسئلہ : یہ مسئلہ ہمارے اور یہود کے درمیان ایک بڑا نزاعی مسئلہ ہے۔ یہود نے خانہ کعبہ اور مروہ کی قربان گاہ سے حضرت ابراہیم کا تعلق بالکل کاٹ دینے کے لیے واقعہ قربانی میں بھی اور ان کی سرگزشت ہجرت میں بھی نہایت بھونڈی قسم کی تحریفات کردی ہیں اور اس طرح انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت ابراہیم نے جس بیٹے کی قربانی کی وہ حضرت اسحاق ہیں نہ کہ حضرت اسماعیل، جس جگہ قربانی کی وہ جبل یروشلم ہے نہ کہ مروہ۔ خدا کی عبادت کے لیے انہوں نے جو گھر بنایا وہ بیت المقدس ہے نہ کہ بیت اللہ۔ انہوں نے جس جگہ ہجرت کے بعد سکونت اختیار کی وہ کنعان ہے نہ کہ جوارِ خانہ کعبہ۔ ان بیانات کی تصدیق یا تردید کا واحد ذریعہ چونکہ تورات ہی ہے اور تورات میں یہود نے اپنے حسب منشا جیسا کہ ہم نے عرض کیا، تحریف کرڈالی، اس وجہ سے اصل حقائق سے پردہ اٹھانا بڑا مشکل کام تھا لیکن ہمارے استاد مولانا فراہی نے یہود کی ان تمام تحریفات کا پردہ خود تورات ہی کے دلائل سے اپنے رسالہ ذبیح میں بالکل چاک کر کے رکھ دیا ہے۔ انہوں نے تورات ہی کے بیانات سے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنے وطن سے نکلنے کے بعد حضرت اسحاق کی والدہ کو تو کنعان میں چھوڑا اور خود حضرت اسماعیل اور ان کی والدہ کے ساتھ بیر سبع کے بیابان میں قیام کیا۔ یہ جگہ ایک غیر آباد جگہ تھی اس وجہ سے انہوں نے یہاں سات کنوئیں کھودے اور درخت لگائے یہیں ان کو خواب میں اکلوتے بیٹے کی قربانی کا حکم صادر ہوا اور وہ حضرت اسماعیل کو لے کر مروہ کی پہاڑی کے پاس آئے اور اس حکم کی تعمیل کی۔ اسی پہاڑی کے پاس انہوں نے حضرت اسماعیل کو آباد کیا۔ پھر یہاں سے لوٹ کر وہ بیر سبع گئے اور اپنے قیام کے لیے ایسی جگہ منتخب کی جو خانہ کعبہ سے قریب بھی ہو اور جہاں سے وقتاً فوقتاً حضرت اسحاق کو دیکھنے کے لیے بھی جانا آسانی سے ممکن ہوسکے۔ مولانا نے یہ ساری باتیں تورات کے نہایت ناقابل تردید دلائل سے ثابت کردی ہیں۔ ہر سوال پر اصل کتاب کے اقتباسات پیش کرنے میں طوالت ہے اس وجہ سے ہم نے صرف خلاصہ بحث اپنے الفاظ میں پیش کردیا ہے۔ جو لوگ تفصیل کے طالب ہوں وہ مولانا کے مذکورہ رسالہ کا مطالعہ کریں۔ ظاہر ہے کہ جب حضرت ابراہیم نے قیام اسی علاقہ میں فرمایا نہ کہ شام میں تو ان کو نماز کے لیے ایک مرکز کی تعمیر بھی اسی علاقہ میں کرنے کا حکم ہونا چاہیے۔ چناچہ اسی حکم کی تعمیل میں انہوں نے اس بیت اللہ کی تعمیر کی جس کا ذکر تورات کی کتاب پیدائش میں بیت ایل کے نام سے ہوا ہے۔ بیت اللہ اور بیت ایل دونوں کے معنی بالکل ایک ہیں ایل کے معنی عبرانی میں اللہ کے ہیں۔ اس بیت ایل سے اگر یہود بیت المقدس کو مراد لیتے ہیں تو قطع نظر اس سے کہ اس سرزمین کو حضرت ابراہیم نے اپنا مسکن نہیں بنایا، یہود کے اس دعوے کو جھٹلانے والی سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ بیت المقدس کی تعمیر بالاتفاق حضرت ابراہیم ؑ کے سیکڑوں سال بعد حضرت سلیمان ؑ کے عہد میں ہوئی ہے۔ چناچہ خانہ کعبہ کی اسی قدامت اور اولیت کی وجہ سے قرآن نے اس کو ‘ بیت عتیق ’ اور ‘ اول بیت ’ کے الفاظ سے بھی تعبیر کیا ہے ،إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا۔ بیشک پہلا گھر جو لوگوں۔ اولاد ابراہیم۔ کے لیے تعمیر ہوا وہی ہے جو بکہ میں ہے، مبارک اور تمام عالم کے لیے سرچشمہ ہدایت۔ اس میں (اس کی اولیت کی) نہایت واضح نشانیاں ہیں، یہ مسکن ابراہیم ہے (اور اس کی روایت ہے کہ) جو اس میں داخل ہوا وہ مامون ہوا (آل عمران :96-97) بیت اللہ کی تعبیر مصلی سے : یہاں بیت اللہ کو“ مصلی ”کے لفظ سے جو تعبیر فرمایا ہے تو اس سے اس گھر کے اصل مقصد تعمیر کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ یہ نماز کا مرکز ہوگا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اس کے جور رحمت میں حضرت اسماعیل کو بساتے وقت دعا بھی یہی کی تھی کہ“ ربنالیقیموا الصلوۃ“ (اے رب میں نے ان کو اس لیے یہاں بسایا ہے تاکہ یہ نماز قائم کریں)۔ لیکن دور جاہلیت میں اس کے مشرک اور مبتدع متولیوں نے اس کو بدعات کا ایک اڈا بنا لیا اور ان کی نماز پھونک مارنے اور تالی بجانے کی ایک بت پرستانہ رسم بن کر رہ گئی۔ اس پہلو سے غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہاں“ مصلی ”کے لفظ میں ایک اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ ذریت ابراہیم کی دونوں شاخوں نے اپنے قبلہ کے بنیادی مقصد کو ضائع کردیا اور اب خدا نے اپنے اس نبی کو بھیجا ہے جو اس کے اصلی مقصد کی تجدید کر رہا ہے۔ یہ ملحوظ رہے کہ یہود نے جس طرح اپنے دینی لٹریچر سے خانہ کعبہ کے ذکر کو خارج کردیا اسی طرح نماز کو بھی انہوں نے بالکل خارج کردیا۔ ان کے ہاں اگر کوئی چیز ہے تو قربانی ہے۔ ان کے معبد کی بھی اصلی حیثیت مرکز نماز کی نہیں بلکہ قربان گاہ کی ہے۔ ہمیں کبھی کبھی یہ خیال ہوتا ہے کہ ان کے نماز کی نعمت سے محروم ہوجانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ انہوں نے اپنے اصل قبلہ خانہ کعبہ سے اپنا تعلق توڑ لیا۔ (بکہ کے معنہ شہر کے ہیں قدیم صحیفوں میں مکہ کے لیے یہی لفظ وارد ہے۔ یہود نے تحریف کر کے اس کو وادی بکاء کردیا ہے، متعلق آیت کی تفسیر کے تحت ہم اس تحریف پر بحث کریں گے)۔ وَعَهِدْنَآ اِلٰٓى اِبْرٰهٖمَ الایۃ۔ عَہِدَ جب الی کے صلہ کے ساتھ آتا ہے تو اس کے معنی کسی پر کوئی ذمہ داری ڈالنے یا اس کو کسی شرط کا پابند کرنے کے آتے ہیں مثلاً وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا۔ اور ہم نے اس سے پہلے آدم کو ایک شرط کا پابند کیا تو وہ بھول بیٹھا اور ہم نے اس میں ارادہ کی مضبوطی نہیں پائی۔ (طہ :115)۔ أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَنْ لا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ۔ کیا میں نے تم کو اس شرط کا پابند نہیں کیا تھا، اے آدم کے بیٹو، کہ تم شیطان کی بندگی نہ کرو گے (یس -60)۔ پس عَهِدْنَآ اِلٰٓى اِبْرٰهٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر خانہ کعبہ کی تولیت کی ذمہ داری ڈالی اور ان کو اس شرط کا پابند کیا کہ وہ اس گھر کو طواف، اعتکاف اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔ تطہیر بیت اللہ کا مقصد : پاک صاف رکھنے سے مقصد ظاہر ہے کہ ان ساری چیزوں سے پاک صاف رکھنا ہے جو اس گھر کے مقصد تعمیر کے منافی ہوں عام اس سے کہ وہ گندگی اور نجاست ہو جس سے عبادت گزاروں کی طبیعت میں تکدر پیدا ہو، یا ارباب لہو لعب کے ہنگامے ہوں جن سے ان کی یکسوئی میں خلل واقع ہو یا اصنام و اوثان ہوں جو خدا کے گھر کو شرک و بت پرستی کا گڑھ بنا کے رکھ دیں۔ ان ساری چیزوں سے اس گھر کو پاک رکھنے کی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل پر ذمہ داری ڈال دی گئی تھی اور تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے اس ذمہ داری کا حق ادا کیا لیکن بعد میں ان کی اولاد جب شرک و بت پرستی میں مبتلا ہوگئی تو اس نے اس گھر کی تولیت کی اس شرط کے برعکس اس کے کونے کونے میں بتوں کو لا بٹھایا اور ان لوگوں کو اس گھر سے نہایت ظلم اور بےدردی سے نکالا جو اس کو از سر نو ذکر الٰہی کے زمزموں، طواف و اعتکاف کی رونقوں اور رکوع و سجود کی جبہ سائیوں سے آباد و معمور کرنا چاہتے تھے۔ قرآن نے یہاں خانہ کعبہ کی ابتدائی تاریخ کی اس حقیقت کی طرف اسی لیے اشارہ فرمایا ہے کہ قریش اس گھر سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں لیکن جب انہوں نے ان کو سمجھنے سے انکار کردیا تو بالآخر اللہ تعالیٰ نے اس کی تولیت کے منصب سے ان کی معزولی کا اعلان کردیا“ مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَنْ يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ أُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ۔إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلا اللَّهَ۔ مشرکین کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے منتظم بنے رہیں۔ در آنحالیکہ وہ خود اپنے کفر پر گواہ ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے تمام اعمال اکارت گئے اور دوزخ میں ہمیشہ رہنے والے یہی ہیں۔ اللہ کی مسجدوں کے منتظم تو وہی ہوسکتے ہیں جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائیں۔ نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں۔ ‘ طواف ’ کا مفہوم : یہاں اس گھر کو تین چیزوں کے لیے خاص کرنے کا حکم ہوا ہے۔ طواف، اعتکاف اور رکوع و سجود۔ طواف سے مراد خانہ کعبہ کے ارد گرد پھیرے لگانا ہے۔ نبی ﷺ کی سنت نے اس کا وہ طریقہ واضح فرما دیا ہے جو اس کا اصل ابراہیمی طریقہ ہے۔ طواف در حقیقت نماز کی ایک قسم ہے لیکن یہ نماز صرف خانہ کعبہ ہی کے پاس ادا ہوسکتی ہے اس کے سوا کہیں اور ادا نہیں ہوسکتی۔ اس کی اس خصوصیت کی وجہ اس کا ذکر سب سے پہلے فرمایا۔ وقار و ادب کے حدود کے اندر رہتے ہوئے محبت الٰہی کے جذبات جس حد تک اس نماز میں ابھرتے ہیں بس اسی کے ساتھ مخصوص ہیں۔ شمع و پروانہ کی حکایت طواف میں ایک حقیقت بن جاتی ہے بشرطیکہ آدمی کے اندر حیات ایمانی کی رمق ہو۔ اعتکاف کا مفہوم : عاکف، عکوف سے ہے جس کی اصل روح دوسری چیزوں سے صرف نظر کر کے کسی خاص چیز کو پکڑ لینا ہے۔ اسی سے اعتکاف ہے جو دھیان گیان اور ذکر و فکر کی عبادت ہے۔ بندہ ہر چیز سے کٹ کر اپنے رب کی یاد کے لیے گوشہ نشین ہوجائے، یہ اعتکاف ہے۔ اس کی صحیح شکل نبی ﷺ نے اپنی سنت سے واضح فرما دی۔ جس طرح طواف محبت الٰہی کے جذبات ابھارنے کے لیے اپنے اندر ایک خاص صفت رکھتا ہے اسی طرح اعتکاف ذکر الٰہی پر عقل اور دل کو جمانے کے لیے اپنے اندر ایک خاص صفت رکھتا ہے۔ رکوع اور سجود کا مفہوم : رُکَّعٌ، رَاکِعٌ کی جمع ہے اور سجود، ساجد کی۔ رکوع اور سجدہ کی لغوی تحقیق آیات 34 تا 42 کی تفسیر کے تحت بیان ہوچکی ہے۔ یہاں یہ دونوں لفظ نماز کی تعبیر کے لیے وارد ہوئے ہیں۔ نماز کی تعبیر رکوع اور سجود سے دو اہم حقیقتوں پر روشنی ڈالتی ہے۔ ایک تو یہ کہ دونوں چیزیں نماز کے قدیم ترین اور اہم ترین ارکان میں سے ہیں۔ نماز کی ظاہری ہیئت میں جو تبدیلیا بھی واقع ہوئیں ہوں لیکن یہ دونوں چیزیں جس طرح ہماری نمازوں میں شامل ہیں اسی طرح ابراہیمی نماز میں بھی شامل تھیں۔ دوسری یہ کہ نماز سے صرف ذکر وفکر ہی مطلوب نہیں ہے بلکہ اس کی مخصوص صورت و ہیئت بھی مطلوب ہے اور اس کی صورت و ہیئت کا اصلی جمال اس کے رکوع و سجود ہیں۔
Top