Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 148
وَ لِكُلٍّ وِّجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّیْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ١ؐؕ اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یَاْتِ بِكُمُ اللّٰهُ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَلِكُلٍّ : اور ہر ایک کے لیے وِّجْهَةٌ : ایک سمت ھُوَ : وہ مُوَلِّيْهَا : اس طرف رخ کرتا ہے فَاسْتَبِقُوا : پس تم سبقت لے جاؤ الْخَيْرٰتِ : نیکیاں اَيْنَ مَا : جہاں کہیں تَكُوْنُوْا : تم ہوگے يَاْتِ بِكُمُ : لے آئے گا تمہیں اللّٰهُ : اللہ جَمِيْعًا : اکٹھا اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز قَدِيْر : قدرت رکھنے والا
ہر ایک کے لیے ایک سمت ہے وہ اسی کی طرف رخ کرنے والا ہے تو تم نیکیوں کی راہ میں سبقت کرو۔ جہاں کہیں بھی تم ہو گے، اللہ تم سب کو جمع کرے گا۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے
لفظ ‘ کل ’ کا مفہوم :‘ کل ’ کا لفظ اگرچہ لفظاً نکرہ ہے لیکن عموماً اس سے مراد وہ خاص گروہ یا اشخاص ہی ہوتے ہیں جن کا ذکر کلام میں اوپر گزر چکا ہوتا ہے مثلاً وَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَكُلا جَعَلْنَا نَبِيًّا (مریم :49) ، ہم نے اس کو عطا کیے اسحاق اور یعقوب اور ان میں سے ہر ایک کو نبی بنایا۔ : وَإِسْمَاعِيلَ وَإِدْرِيسَ وَذَا الْكِفْلِ كُلٌّ مِنَ الصابرین (انبیاء : 85) اور اسماعیل، ادریس اور ذوالکفل، ان میں سے ہر ایک صابروں میں سے تھا۔ چناچہ یہاں بھی ‘ لکل ’ سے مراد یہود و نصاری کے وہی گروہ ہیں جن کا ذکر اوپر سے چلا آرہا ہے۔ ان کے متعلق فرمایا ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے قبلہ کے لیے ایک جہت ٹھہرا لی ہے۔ کسی نے مشرق، کسی نے مغرب، یہ اپنی اسی ٹھہرائی ہوئی جہت ہی کو قبلہ بنائیں گے، تم کتنا ہی زور لگاؤ یہ پتھر کسی طرح اپنے مقام سے کھسکنے والے نہیں ہیں۔ اس وجہ سے تم ان کے پیچھے اپنی راہ کھوٹی نہ کرو بلکہ خدا کی دکھائی ہوئی صراط مستقیم پر آگے بڑھو اور نیکیوں اور بھلائیوں میں ایکد وسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ گویا وہی بات جو اوپر والی آیت میں فرمائی تھی کہوَلَىِٕنْ اَتَيْتَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ بِكُلِّ اٰيَةٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَكَ الایۃ، اس آیت میں ایک دوسرے اسلوب سے فرما دی۔ مقصود اس سے ہرگز ہر گز قبلہ کے معاملہ میں کسی رواداری کا اظہار نہیں ہے بلکہ یہ یہود و نصاری کے رویہ سے بیزاری کا اظہار ہے۔ مسلمانوں کو اس بات کی نصیحت کی جا رہی ہے کہ ان جامدوں اور ہٹ دھرموں کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور تم حصول سعادت کی راہ میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ فَاسْتَبِقُوا کا مصدر استباق ہے جس کے معنی ہیں دوڑ میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہوئے سبقت لے جانے کی کوشش کرنا۔ مثلا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ (یوسف :17) ، ہم دوڑ میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہوئے دور نکل گئے۔۔ جس طرح دوڑ کے مقابلوں میں ایک نشان ٹھہرا کر ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح قبلہ عبدیت وانابت اور فلاح وسعادت کی جدو جہد میں مقابلہ کے لیے خدا کا مقرر کردہ ایک نشان یا گول ہے۔ اس نشان کو، جیسا کہ اوپر تفصیل گزر چکی ہے، پچھلی امتوں نے ضائع کردیا تھا اس وجہ سے ان کی بھاگ دوڑ بھی بالکل دوسری وادیوں مٰ ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس نشان حق کو امت وسط کے لیے پھر نمایاں کیا اور اس کو دعوت دی کہ اگر دوسرے اس میدان میں اترنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑو اور تم اپنی سرگرمیوں سے اس میدان کو پھر گرم کرو۔ قبلہ کے متعلق یہ بات کہ وہ فلاح وسعادت کے حصول کے لیے ایک نشان اور عَلَم کی حیثیت رکھت ہے محض کوئی استعارہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ اس حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کرنے کے لیے اس عظیم تاریخ کو حافظہ میں از سرِ نو تازہ کرنے کی کوشش کیجیے جو اس گھر کے ایک ایک پتھر پر نقش ہے جس کو قبلہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ گھر وہ گھر ہے جس کی تعمیر ابراہیم خلیل اللہ اور اسماعیل ذبیح اللہ نے اپنے مقدس ہاتھوں سے کی ہے۔ یہ گھر وہ گھر ہے جو اس دنیا کے بتکدے میں خدائے وحد کی عبادت کا اولین مرکز ہے، اسی گھر کے پہلو میں مروہ پہاڑی ہے جس کے دامن میں چشم فلک نے رضائے الٰہی کے لیے بوڑھے باپ کو محبوب اور اکلوتے فرزند کی گردن پر چھری چلاتے اور اسلام کی حقیقت کا مظاہرہ کرتے دیکھا ہے، یہی گھر ہے جس کے ارد گرد کے چٹیل میدانوں کو قدرت نے اس امت مسلمہ کے نشوونما کے لیے منتخب فرمایا جس کے ذریعہ سے دنیا کی تمام قوموں کو خدا کی رحمت تقسیم ہونے والی تھی، یہی گھر ہے جو حضرت ابراہیم کے وقت سے لے کر برابر تمام قدوسیوں کا قبلہ رہا ہے اور جس میں طواف واعتکاف اور رکوع و سجود کی سعادت اتنے انسانوں نے حاصل کی ہے کہ جس طرح زمین کے ذروں اور آسمان کے ستاروں کا شمار ناممکن ہے اسی طرح ان نفوس قدسیہ کا شمار بھی ناممکن ہے۔ اسی کے قرب میں وہ میدان ہے جس کی ریت کا ایک ایک ذرہ توبہ و استغفار کے سجدوں کا گواہ اور خوفِ خدا سے رونے والوں کے آنسوؤں کا امین ہے۔ اسی گھر کے ایک کونے میں وہ مقدس پتھر ہے جس کو خدا کے داہنے ہاتھ سے تشبیہ دی گئی ہے اور جس کو ہاتھ لگا کر یا بوسہ دے کر لاکھوں کروڑوں انبیاء و صدیقین اور صلحاء و ابرار نے اپنے رب سے عہد بندگی و وفاداری استوار کیا ہے، اسی کے پاس وہ جمرات ہیں جو اس گھر کے دشمنوں کی ذلت و پامالی کی یادگار ہیں اور جن پر سنگ باری کر کے اہل ایمان اپنے اندر برابر اعدائے دین کے خلاف جہاد کی روح تازہ کرتے رہے ہیں اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اسی گھر کے سایہ میں خدا کے آخری پیغمبر محمد ﷺ نے پرورش پائی جن کے لائے نور اور جن کی بخشی ہوئی ضیا نے تمام دنیا میں اجالا کردیا۔ ایک ایسی عظیم روایات کے امین گھر کو قبلہ بنانے کے معنی یقیناً یہی ہیں کہ اس کو ایک نشان قرار دے کر ان روحانی خزانوں کے حصول کے لیے جدوجہد کی جائے جو سیدنا ابراہیم سے لے کر حضور نبی کریم ﷺ تک اس گھر کو ودیعت ہوئے یا دوسرے لفظوں میں اس کو ایک پاور ہاؤس سمجھیے جس سے پوری امت زندگی، حرارت، روشنی اور قوت حاصل کرتی ہے۔ جن لوگوں پر قبلہ کی عظمت و اہمیت کا یہ پہلو واضح نہیں ہے وہ اکثر اس امر میں حیران ہوتے ہیں کہ اینٹ اور پتھر کے بنے ہوئے ایک مکان کو دین میں اس درجہ اہمیت کیوں دے دی گئی ہے لیکن اوپر کی تفصیل سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ اصل اہمیت اینٹ پتھر کے مکان کی نہیں بلکہ ان عظیم روایات کی ہے جو اس گھر سے وابستہ ہیں اور جو اس دنیا کی روحانی و ایمانی زندگی کا واحد ذریعہ ہیں۔ ان روایات کی وجہ سے ملت کے نظام اجتماعی میں اس گھر کو وہی اہمیت حاصل ہے جو ایک جسم کے نظام میں قلب کو حاصل ہوتی ہے۔ جس طرح قلب کے بغیر جسم کا وجود نہیں اسی طرح قبلہ کے بغیر ملت کا کوئی تصور نہیں۔ یہاں قبلہ سے متعلق ان اجمالی اشارات پر کفایت کرتے ہیں۔ آگے مناسب مواقع پر ہم اس کی اہمیت کے بعض دوسرے گوشوں پر بھی نظر ڈالیں گے۔ اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يَاْتِ بِكُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس قبلہ کو قبلہ قرار دے کر جہاں کہیں سے بھی تم نیکی اور بھلائی کی راہ میں کوئی جدوجہد کروگے وہ ضائع نہیں جائے گی، خدا تم کو ہر جگہ سے اکٹھا کرے گا اور تمہیں تمہاری ہر چھوٹی بڑی نیکی کا بدلہ دے گا۔ یہ استباق الی الخیر کے لیے ایک نشان کی طرح ہے۔ اس سے قرب و بعد دل کے تعلق کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ ہر شخص ہر جگہ اس سے ربط قائم کرسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے تعلق رکھنے والوں کو ہر جگہ سے جمع کرسکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ جو جس سمت بھی رخ کرنا چاہتا ہے اس کو کرنے دو ، تم ان بحثوں میں الجھنے کی بجائے نیکی اور بھلائی کی راہوں میں بڑھو، ایک دن آئے گا جب اللہ تم سب کو جمع کر کے فیصلہ کرے گا کہ کون حق کی راہ چلا اور کس نے ضد ہٹ دھرمی کی روش اختیار کی۔
Top