Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 208
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً١۪ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے ادْخُلُوْا : تم داخل ہوجاؤ فِي : میں السِّلْمِ : اسلام كَآفَّةً : پورے پورے وَ : اور لَا تَتَّبِعُوْا : نہ پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ : دشمن مُّبِيْنٌ : کھلا
اے ایمان والو، اللہ کی اطاعت میں پورے پورے داخل ہوجآ اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو۔ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔
سِلْمْ کے معنی اطاعت کے ہیں اور مراد اس سے اللہ و رسول کی اطاعت ہے۔ بعض لوگوں نے اس کے معنی اسلام کے لیے ہیں۔ لیکن یہ فرق محض ظاہر کا فرق ہے، اس لیے کہ اسلام کی اصل حقیقت اللہ و رسول کی اطاعت ہی ہے۔ یہ لفظ حرب کا ضد بھی آتا ہے اس صورت میں اس کے معنی صلح و امن کے ہوتے ہیں، اس مفہوم میں بھی اسلام کی روح موجود ہے، اس لیے کہ صلح و ام کی اصل راہ اللہ و رسول کی اطاعت ہی ہے۔ کافۃ کے معنی جماعت کے ہیں اور یہ یہاں حال پڑا ہوا ہے۔ قرآن میں دوسرے مقامات میں بھی یہ اسی شکل میں استعمال ہوا ہے۔ منافقین کو مخلصانہ اطاعت کی دعوت : خطاب اگرچہ الفاظ کے لحاظ سے عام یعنی تمام مسلمانوں سے ہے لیکن قرینہ دلیل ہے کہ روئے سخن ان منافقین کی طرف ہے جن کا ذکر اوپر کی آیات میں ہوا ہے۔ ان سے خطاب کر کے یہ کہا جا رہا ہے کہ سچے اور پکے اہل ایمان کی طرح تم بھی اللہ و رسول کی اطاعت میں پورے پورے داخل ہوجاؤ۔ اس ہدایت کی وجہ یہ ہے کہ ان منافقین کی وفاداری تقسیم تھی۔ یہ ایک طرف تو آنحضرت ﷺ پر ایمان کے مدعی تھے اور اسلام کی حمایت کا دم بھرتے تھے اور دوسری طرف اسلام کے مخالفین کے ساتھ بھی ان کا ساز باز تھا۔ قرآن نے جگہ جگہ ان کی اس روش کی طرف اشارے کیے ہیں۔ مثلا سورة محمد میں انہی لوگوں کی طرف اشارہ ہے“ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لِلَّذِينَ كَرِهُوا مَا نَزَّلَ اللَّهُ سَنُطِيعُكُمْ فِي بَعْضِ الأمْرِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِسْرَارَهُمْ : یہ اس وجہ سے ہے کہ ان منافقین نے ان لوگوں سے جنہوں نے اللہ کی اتاری ہوئی چیز کا برا نہ منایا، یہ کہا کہ ہم بعض معاملات میں آپ ہی لوگوں کی اطاعت کریں گے۔ اللہ ان کی اس راز داری کو خوب جانتا ہے ”(محمد :26)۔ ظاہر ہے کہ یہاں للذین کرھوا سے اشارہ یہود اور مشرکین کے لیڈروں ہی کی طرف ہوسکتا ہے۔ سورة نساء کی مندرجہ ذیل آیات بھی ان کی اسی روش کی طرف اشارہ کر رہی ہیں“ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالا بَعِيدًا (60) وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُودًا : ذرا ان لوگوں کو دیکھو جو مدعی ہیں کہ وہ اس چیز پر بھی ایمان لائے ہیں جو تم سے پہلے اتری ہے، یہ چاہتے ہیں کہ اپنے معاملات فیصلہ کے لیے طاغوت کے پاس لے جائیں، حالانکہ ان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس کا انکار کریں، شیطان چاہتا ہے کہ ان کو بڑی ہی دور کی گمراہی میں پھینک دے۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس چیز کی طرف آؤ جو اللہ نے اتاری ہے اور رسول کی طرف تو تم ان منافقین کو دیکھتے ہو کہ وہ طرح طرح سے گریز کی راہیں اختیار کرتے ہیں۔ ”(نساء : 60-61)۔ یہ بات اپنی جگہ پر ثابت ہے کہ یہاں طاغوت سے مراد یہود کی عدالتیں ہیں۔ چونکہ ان عدالتوں رشوت وغیرہ دے کر خلاف عدل و انصاف فیصلے کرانا بڑی آسانی سے ممکن تھا، نیز علمائے یہود نے اپنی کتر بیونت سے شریعت کے بہت سے احکام اپنی خواہشات کے مطابق کردئیے تھے اس وجہ سے منافقین اپنے بہت سے معاملات انہی کی عدالتوں میں لے جانا چاہتے تھے اور جب ان سے کہا جاتا کہ ایمان و اسلام کا تقاضا تو یہ ہے کہ وہ اپنے معاملات قرآن اور پیغمبر ﷺ کے سامنے پیش کریں تو وہ مختلف حیلوں حوالوں سے گریز اختیار کرنے کی کوشش کرتے۔ وفاداری کی یہ تقسیم ایمان واسلام کے منافی بکہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے شرک ہے۔ یہیں شیطانوں کو انسنوں کو گمراہ کرنے کی، جیسا کہ سورة نساء کی مذکوہ بالا آیت میں اشارہ ہے، نہایت کشادہ راہ مل جاتی ہے۔ اس وجہ سے قرآن نے اس فتنہ کے دروازے کو بند کرنے کی ہدایت کی اور حکم دیا کہ سب کے سب بغیر کسی استثناء اور بغیر کسی تحفظ کے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں داخل ہوجائیں۔ اطاعت کامل کا یہی راستہ امن وعدل کا راستہ ہے اور اسی راستہ پر چلنے والوں کے لیے فوز و فلاح ہے۔ جو لوگ اس سے ہٹ کر کوئی راہ نکالنی چاہتے ہیں اور بیک وقت کفر اور اسلام دونوں سے رسم ور اہ رکھنے کے خواہشمند ہیں، وہ شیطان کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں اور شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے۔ اس لیے کہ اس نے روز اول ہی سے اس کی راہ مارنے اور اس کو گمراہ کرنے کا کھلم کھلا الٹی میٹم دے رکھا ہے۔
Top