Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 215
یَسْئَلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ١ؕ۬ قُلْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ؕ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ
يَسْئَلُوْنَكَ : وہ آپ سے پوچھتے ہیں مَاذَا : کیا کچھ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کریں قُلْ : آپ کہ دیں مَآ : جو اَنْفَقْتُمْ : تم خرچ کرو مِّنْ : سے خَيْرٍ : مال فَلِلْوَالِدَيْنِ : سو ماں باپ کے لیے وَالْاَقْرَبِيْنَ : اور قرابتدار (جمع) وَالْيَتٰمٰى : اور یتیم (جمع) وَالْمَسٰكِيْنِ : اور محتاج (جمع) وَابْنِ السَّبِيْلِ : اور مسافر وَمَا : اور جو تَفْعَلُوْا : تم کرو گے مِنْ خَيْرٍ : کوئی نیکی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِهٖ : اسے عَلِيْمٌ : جاننے والا
وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں ؟ کہہ دو جو مال بھی تم خرچ کرتے ہو تو وہ والدین، قرابت مندوں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو اللہ اس سے اچھی طرح باخبر ہے۔
اس سورة میں شروع ہی سے انفاق اور زکوۃ کا حکم بار بار آ رہا ہے۔ خاص طور پر آیت 95 میں بیت اللہ کی کی آزادی کے جہاد کے سلسلے میں بڑی تاکید سے انفاق پر ابھارا ہے۔ وہاں ہم نے اشارہ کیا ہے کہ اگرچہ الفاظ کے لحاظ تو خطاب عام ہے لیکن روئے سخن درحقیقت ان مسلمانوں کی طرف ہے جو جان و مال کی قربانی میں کمزور تھے۔ قاعدہ ہے کہ آدمی کے دل میں اگر کسی چیز سے متعلق کمزوری ہو، وہ اس کے کرنے کی ہمت نہ کر رہا ہو تو وہ اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لیے بار بار سوال کرتا ہے اور اس طرح گویا وہ یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ جہاں تک اصل کام کا تعلق ہے اس کو کرنے کے لیے تو وہ جی جان سے حاضر ہے لیکن کرے کیا کہ ابھی تو اصل بات ہی اس کی سمجھ میں نہیں آئی ہے۔ یہی بھید ہے کہ سوالات سچے اور پکے مسلمانوں کی طرف بہت کم کیے گئے ہیں زیادہ تر ان لوگوں کی طرف سے کیے گئے جو کم ہمت اور بخیل تھے اور اپنی اس کمزوری کو سوالات کے پردے میں چھپانا چاہتے تھے۔ اسی طرح کے لوگ تھے جنہوں نے انفاق کے حکم کے جواب میں یہ سوال اٹھایا جس کا آیت زیر بحث میں حوالہ دے کر جواب دیا گیا ہے۔ اس سوال سے خود اس بات کا اظہار ہو رہا ہے کہ گویا وہ انفاق کے مطالبوں سے دبے جا رہے ہیں اور ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ یہ مطالبے کس حد پر جا کر رکیں گے۔ چناچہ قرآن نے سوال کرنے والوں کی اس ذہنیت کو سامنے رکھ کر جواب دیا ہے اور اس جواب کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ تو یہ ہے کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے والوں کو یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہئے کہ وہ جو کچھ بھی خرچ کرتے ہیں اس کا کوئی حصہ بھی خدا کے جیب میں نہیں جاتا، وہ کسی کے مال و اسباب کا محتاج نہیں ہے بلکہ وہ ایک ہاتھ سے جو کچھ لیتا ہے دوسرے ہاتھ سے ہماری ہی طرف لوٹا دیتا ہے، ہمارے ہی ماں باپ، ہمارے ہی خوایش و اقارب، ہمارے ہی یتیم، ہمارے ہی مسکین اور ہمارے ہی مسافر ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ گویا خدا کی راہ میں ہم جو کچھ خرچ کرتے ہیں، کسی دوسری کی خدمت پر نہیں بلکہ اپنی ہی خدمت پر خرچ کرتے ہیں۔ بس فرق ہے تو یہ ہے کہ اس خرچ کی نوعیت ایک اجتماعی نظم کی ہے جس کا فائدہ سب کو بحیثیت مجموعی پہنچتا ہے۔ یہی حقیقت حضور نے توخذ من اغنیائہم و ترد علی فقرائہم، ان کے مالداروں سے لے کر ان کے غریبوں میں تقسیم کردیا جائے، کے الفاظ سے واضح فرمائی اور اسی بات کی طرف سورة سبا کی آیت، قل ما سالتکم من اجر فھو لکم، کہہ دو میں نے جو تم سے اجر مانگا ہے وہ تمہارے ہی لیے ہے، بھی اشارہ کر رہی ہے۔ اس جواب کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان جو نیکی بھی کرتا ہے اسے اطمینان رکھنا چاہئے کہ اس کا ایک ایک ذرہ سب خدا کے علم میں ہے۔ کوئی چیز نہ تو اس کے علم سے باہر ہے اور نہ کسی چیز کو وہ فراموش کرنے والا ہے، پھر جب وہ سب کچھ جانتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ اس کا بھرپور صلہ بھی دے گا، پھر جب ہر چیز کا صلہ ملنے والا ہے اور وہ بھی دس گنے سے لے کر سات سو گنے تک تو ایسے نفع بخش کاروبار میں سرمایہ لگانے سے انسان کیوں گھبرائے ؟“ وَلا يُنْفِقُونَ نَفَقَةً صَغِيرَةً وَلا كَبِيرَةً وَلا يَقْطَعُونَ وَادِيًا إِلا كُتِبَ لَهُمْ لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ : اور وہ خدا کی راہ میں جو چھوٹا یا بڑا انفاق کرتے ہیں یا کوئی وادی قطع کرتے ہیں تو یہ ان کے لیے لکھ لیا جاتا ہے تاکہ اللہ ان کو اس سے بہتر بدلہ دے ”(توبہ :121)۔ یہ جواب اگرچہ نہایت واضح اور جامع تھا لیکن اس کے بعد بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ غالباً اسی کمزوری کے سبب سے جس کی طرف ہم نے اوپراشارہ کیا ہے، سوال کرتے ہی رہے، چناچہ آگے آرہا ہے وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ ڛ قُلِ الْعَفْوَ : اور وہ تم سے سوال کرتے ہیں کہ کیا خرچ کریں، کہہ دو کہ جو ضروریات سے فاضل بچ رہے۔ اس جواب نے انفاق کی آخری حد معین کردی کہ یہ انفاق چونکہ امت کے تحفظ و بقا کے جہاد کے سلسلہ کا انفاق ہے اس وجہ سے اس میں دین کا مطالبہ یہ ہے کہ انسان اپنی ناگزیر ضروریات سے جو کچھ بچا سکے وہ سب خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے تیار رہے۔ مولانا فراہی ؒ اس آیت کو ذرا اس سے مختلف زاویہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کی تاویل یہ ہے کہ چونکہ یہ انفاق اس جہاد کے لیے تھا جس کا حکم خانہ کعبہ کو مشرکین قبضہ سے آزاد کرانے کے لیے ہوا تھا اس وجہ سے اس نے مسلمانوں کی ساری توجہ اپنی طرف جذب کرلی اور اس جہاد کی تیاریوں میں وہ اس قدر منہمک ہوگئے کہ انفاق کے دوسرے مصارف، والدین، اقربا، یتامی، مساکین وغیرہ۔ کی طرف ان کو وہ توجہ نہیں رہی جو ہونی چاہیے تھی اس وجہ سے لوگو میں یہ سوال پیدا ہوا کہ انفاق کی مقدار کیا ہو۔ اس کے جواب میں ارشاد ہوا کہ خدا کی راہ میں جو کچھ خرچ کیا جائے اس کے اول حق دار وہ مستحقین ہیں جن کا ذکر ہوا، پھر مزید جو کچھ خرچ کیا جائے تو وہ سب اللہ کے علم میں رہے گا اور وہ اس کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ یہاں مقدار کی تشریح نہیں فرمائی کہ لوگ خود اپنی عقل سے کام لیں اور مختلف دینی ضروریات میں توازن قائم کریں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد بھی بعض لوگوں کے ذہن میں مقدار سے متعلق شبہ رہ گیا تو انہوں نے پھر سوال کیا۔ ان کے جواب میں یہ تصریح کردی گئی کہ جو کچھ مستحقین سے فاضل بچے وہ خرچ کرو، چونکہ اوپر مستحقین کا ذکر ہوچکا تھا اس وجہ سے یہ مختصر جواب کافی ہوا۔
Top