Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 27
الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ١۪ وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ
الَّذِیْنَ : جو لوگ يَنْقُضُوْنَ : توڑتے ہیں عَهْدَ اللہِ : اللہ کا وعدہ مِنْ بَعْدِ : سے۔ بعد مِیْثَاقِهِ : پختہ اقرار وَيَقْطَعُوْنَ : اور کاٹتے ہیں مَا۔ اَمَرَ : جس۔ حکم دیا اللّٰهُ : اللہ بِهٖ : اس سے اَنْ يُوْصَلَ : کہ وہ جوڑے رکھیں وَيُفْسِدُوْنَ : اور وہ فساد کرتے ہیں فِي : میں الْاَرْضِ : زمین أُوْلَٰئِکَ : وہی لوگ هُمُ : وہ الْخَاسِرُوْنَ : نقصان اٹھانے والے ہیں
جو اللہ کے عہد کو اس کے باندھنے کے بعد توڑتے ہیں اور جس چیز کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا اس کو کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد مچاتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو نامراد ہونے والے ہیں
رشتۂ رحم کی اہمیت: وَیَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ: اور اس چیز کو کاٹتے ہیں جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے، ہمارے نزدیک اس سے مراد رشتۂ رحم اور رشتۂ قرابت کا کاٹنا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے عہد و پیمان توڑنے کے بعد دوسرا قدم جو ایک نافرمان اٹھاتا ہے وہ حقوق رحم سے بے پروائی یا ان میں بے اعتدالی اور نا انصافی ہے۔ چونکہ تمام صلاح و فلاح اور تمام تمدن و معاشرت کی بنیاد اسلام نے اللہ تعالیٰ سے تقویٰ پر اور رشتہ رحم کے احترام پر رکھی ہے اس وجہ سے جو شخص ان دونوں پابندیوں سے آزاد ہوا اس کا ہر اقدام لازماً فساد فی الارض کا موجب ہو گا۔ چناں چہ یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑنے اور رشتہ رحم کے کاٹنے کا لازمی نتیجہ وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ بیان کیا گیا ہے۔ قرآن میں ان دونوں چیزوں کا ذکر اس طرح ساتھ ساتھ ہوتا ہے گویا یہ لازم و ملزوم ہیں۔ مثلاً فَھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ (22۔ محمد) ’’پس اغلب ہے کہ اگر تم اعراض کرو تو زمین میں فساد برپا کرو اور اپنے رحمی رشتوں کو کاٹو‘‘ ان دونوں کے اسی لزوم کے سبب سے قتادہ نے یہاں رشتہ رحم ہی مراد لیا ہے اور ابن جریر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ بعض لوگوں نے اس کو عام رکھا ہے اور اس سے ہر اس چیز کا کاٹنا مراد لیا ہے جس کو خدا نے جوڑنے کا حکم دیا ہے۔ جہاں تک ظاہری الفاظ کا تعلق ہے اس معنی کو بھی غلط نہیں قراردیا جا سکتا لیکن سوال صرف ظاہری الفاظ کا نہیں بلکہ قرآن مجید کے طرزِ بیان کا ہے۔ قرآن نے یہ طرزِ بیان جہاں جہاں بھی اختیار کیا ہے موقع و محل دلیل ہے کہ رشتہ رحم ہی کے لیے اختیار کیا ہے۔ اس طرزِ بیان میں جو ابہام ہے اس سے رشتہ رحم کی عظمت و اہمیت واضح ہوتی ہے کہ یہ ایسی واضح، بدیہی اور معروف حقیقت ہے کہ بغیر اس کے کہ اس کا نام لیا جائے ہر شخص جانتا اور سمجھتا ہے کہ وہ کیا چیز ہے جس کو خدا نے کاٹنے کا نہیں بلکہ جوڑنے کا حکم دیا ہے اور تمدن اور معاشرے کی صلاح و فلاح کے پہلو سے جس کی اہمیت یہ ہے کہ جس نے اس کو کاٹا اس نے گویا تمدن اور معاشرے کی جڑ ہی پر کلہاڑا رکھ دیا۔
Top