Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 48
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا یُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ
وَاتَّقُوْا : اور ڈرو يَوْمًا : اس دن لَا تَجْزِیْ : بدلہ نہ بنے گا نَفْسٌ : کوئی شخص عَنْ نَّفْسٍ : کسی سے شَيْئًا : کچھ وَلَا يُقْبَلُ : اور نہ قبول کی جائے گی مِنْهَا : اس سے شَفَاعَةٌ : کوئی سفارش وَلَا يُؤْخَذُ : اور نہ لیا جائے گا مِنْهَا : اس سے عَدْلٌ : کوئی معاوضہ وَلَا : اور نہ هُمْ يُنْصَرُوْنَ : ان کی مدد کی جائے گی
اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی جان کسی دوسری جان کے کچھ کام نہ آئے گی، نہ اس کی طرف سے کوئی سفارش قبول ہوگی اور نہ اس سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا نہ ان کی کوئی مدد کی جائے گی
جَزٰی عَنۡہُ کے معنی ہیں، اس کی طرف سے ادا کر دیا، یا اس کی طرف سے کافی ہوگیا۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا کے معنی ہوں گے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے کچھ کام نہ آسکے گا۔ جو ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہوگی کوئی دوسرا اس کی طرف سے وہ ادا نہ کرسکے گا۔ یہ مضمون قرآن مجید میں مختلف اسلوبوں میں بیان ہوا ہے مثلاً وَلاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی (۱۶۴ انعام) اور کوئی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھا سکے گی۔ وَاخْشَوْا یَوْمًا لَّا یَجْزِیْ وَالِدٌ عَنْ وَلَدِہٖ وَلَا مَوْلُوْدٌ ہُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِہٖ شَیْْءًا (لقمان ۳۳) اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی باپ اپنی اولاد کے کام نہ آسکے گا اور نہ کوئی بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکے گا۔ اس دن ہر ایک پر نفسی نفسی کی حالت طاری ہو گی۔ لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ یَوْمَءِذٍ شَاْنٌ یُغْنِیْہِ (۳۷ عبس) شفاعت ، شفع سے ہے۔ شَفَعَ الشَئ کے معنی ہیں، اس کے ساتھ اسی طرح کی کوئی چیز ملا کر اس کو جوڑا کر دیا۔ شفع لفلان یا شفع فیہ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی کی بات یا درخواست کے ساتھ کوئی شخص اپنی تائید یا سفارش ملا کر اس کو موید کر دے۔ عدل کے معنی انصاف کے ہیں۔ فرمایا اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ (نساء ۵۸) یہ کہ انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ پھر یہیں سے یہ لفظ مساوی اور برابر کے معنی میں استعمال ہوا۔ فرمایا اَوْ عَدْلُ ذٰلِکَ صِیَامًا (۹۵ مائدہ) یا اس کے برابر روزے۔ نیز فدیہ کے معنی میں استعمال ہوا کیونکہ فدیہ جس کا فدیہ ہوتا ہے اس کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ لَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنْصَرُوۡنَ میں عربی زبان کا وہ اسلوب ملحوظ ہے جس میں بظاہر تو ایک شے کے لازم کی نفی ہوتی ہے لیکن مقصود درحقیقت ملزوم کی نفی ہوتی ہے۔ امرء القیس نے اپنے ایک شعر میں ایک صحرائی راستہ کی تعریف کی ہے کہ لا یھتدی بمنارہ (اس کی برجیوں سے رستہ معلوم نہیں کیا جاتا) ظاہر ہے کہ اس طرز تعبیر سے اس کا مقصود یہ بتانا ہےکہ اس صحرا میں رہنمائی کے لئے برجیاں اور منارے سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ اسی اسلوب پر یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ اس دن نہ کوئی ان کے لئے شفاعت کرنے والا ہوگا، نہ کوئی شفاعت قبول ہو گی، نہ کسی کے پاس دینے کے لئے معاوضہ ہو گا، نہ کسی سے معاوضہ لیا جائے گا، نہ کسی کے حامی اور مددگار ہوں گے، نہ کسی کی حمایت ومدد کی جاسکے گی۔ یہی حقیقت دوسرے الفاظ میں اس طرح بیان ہوئی ہے۔ فَمَا تَنفَعُہُمْ شَفَاعَۃُ الشَّافِعِیْنَ (۴۸ مدثر) پس ان کوشفاعت کرنے والوں کی شفاعت کچھ نفع نہیں دے گی۔ اور پھر دوزخیوں کی زبان سے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں۔ فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْنَ، وَلَا صَدِیْقٍ حَمِیْمٍ (۱۰۰۔۱۰۱ شعراء) نہ ہمارے کوئی سفارش کرنے والے ہیں اور نہ سرگرم دوست۔ بنی اسرائیل کو حضرت ابراہیم علیہ اسلام، حضرت اسحٰق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام جیسے انبیاء کی اولاد میں سے ہونے کا جو گھمنڈ تھا اور جس کی بنا پر وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے تھے کہ ان کی نجات کے لئے ان بزرگوں کی نسبت اور سفارش ہی کافی ہو گی، یہ آیت ان کے اس واہمہ کی جڑ کاٹ رہی ہے اور ان کو اس بات کی یاد دہانی کر رہی ہے کہ خدا کے ہاں کام آنے والی اصل چیز عہد الہٰی کی پابندی اور ایمان وعمل صالح ہے۔ اس سے بے پروا ہو کر محض آرزوؤں کے ہوائی قلعہ پر اعتماد نہ کرو۔
Top