Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 56
ثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
ثُمَّ بَعَثْنَاكُمْ : پھر ہم نے تمہیں زندہ کیا مِنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ : تمہاری موت کے بعد لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : احسان مانو
پھر ہم نے تمہاری موت کے بعد تمہیں اٹھایا تاکہ تم شکر گزار بنو
اس صاعقہ اور زلزلہ سے ان ستر سرداروں پر جو اس ۱؂ موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ طور پر گئے تھے جو حالت طاری ہوئی، قرآن مجید نے اس کو موت سے تعبیر کیا ہے۔ اس موت سے موت بھی مراد ہوسکتی ہے اور بطریق استعارہ بے ہوشی بھی۔ عربی زبان میں موت کا لفظ استعارہ کے طور پر نیند اور بے ہوشی کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔۲؂ چنانچہ سو کر اٹھنے کے بعد کی جو مشہور دعا احادیث میں نقل ہوئی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں، الحمد لِلہ الذی احیانا بعد ما اماتنا والیہ النشور (اس اللہ کے لئے شکر ہے جس نے ہمیں مارنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا اور اسی کی طرف لوٹنا ہے) اسی طرح بعثت کا لفظ بھی اصحاب کہف کے واقعہ میں ان کو نیند سے بیدار کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اگرچہ بنی اسرائیل اپنی سرکشی کے سبب سے سزاوار تو اسی بات کے تھے کہ ان کو دوبارہ اٹھنا نصیب نہ ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے ان کو مزید مہلت بخشی اور ان کے پیغمبر نے بھی اس موقع پر ان کے لئے بڑی دل سوزی کے ساتھ دعا کی جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔ سورہ اعراف میں اس کا حوالہ اس طرح آیا ہے۔ وَاخْتَارَ مُوۡسٰی قَوْمَهٗ سَبْعِيۡنَ رَجُلاً لِّمِيقَاتِنَا فَلَمَّآ اَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ اَهْلَكْتَهُمۡ مِنۡ قَبْلُ وَاِيَّايَ اَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَآءُ مِنَّا اِنْ هِيَ اِلاَّ فِتْنَتُكَ تُضِلُّ بِهَا مَنۡ تَشَآءُ وَتَهْدِیۡ مَنۡ تَشَآءُ وَاَنۡتَ وَلِيُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنۡتَ خَيْرُ الْغَافِرِيۡنَ۔ (اعراف: ۱۵۵) اور موسیٰ علیہ السلام نے ہمارے مقررہ وقت پرحاضری کے لئے اپنی قوم سے ستر آدمی منتخب کئے تو جب ان کو زلزلہ نے آپکڑا تو موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی اے رب اگر توچاہتا تو ان کو اور مجھ کو پہلے ہی ہلاک کر چھوڑتا، کیا تو اس جرم میں ہم سب کو ہلاک کر دے گا جو ہم میں سے بے وقوفوں نے کیا ہے۔ یہ تو بس تیری آزمائش تھی۔ اس کے ذریعہ سے تو جس کو چاہے گمراہ کرے اور جس کو چاہے ہدایت دے۔ تو ہمارا مددگار ہے۔ تو ہمیں بخش اور ہم پر رحم فرما اور تو بہترین بخشنے والا ہے۔ ۱؂ قرآن مجیدسے واضح ہوتا ہے کہ یہ اس موقع کی بات ہے جب گوسالہ پرستی کے حادثہ کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے ستر منتخب آدمیوں کو لے کر طور پر اس مقصد سے گئے ہیں کہ اپنی قوم کے لیے معافی مانگیں اور اس کام میں اپنی قوم کے ان لیڈروں کو بھی شریک کریں۔ ۲؂ لسان العرب میں ہے، مات الرجل و ھمہ وھوم اذا نام۔۔۔ الموت السکون وکل ما سکن فقدمات۔۔۔ و فی حدیث دعاء الانتباہ: الحمدللہ الذی احیانا بعد ما اماتنا وا لیہ النشور۔سمی النوم موتا لا نہ یزدول معہ العقل والحرکۃ تمثیلاً وتشبیھا لا تحقیققا و قیل الموت فی کلام العرب یطلق علی السکون یقال ماقت الریح ای سکنت و منھا المنام لقولہ تعالیٰ والتی لم تمت فی منھا و قد قیل المنام الموت الخفیف والموت النوم الثقیل۔۔۔ الموتۃ جنس من الجنون والصرع یعتری الانسان فاذا افاق عادالیہ عقلہ کالنائم والسکون۔ والموتہ انعشی۔
Top