Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 62
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ النَّصٰرٰى وَ الصّٰبِئِیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١۪ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
اِنَّ
: بیشک
الَّذِیْنَ
: جو لوگ
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
وَالَّذِیْنَ
: اور جو لوگ
هَادُوْا
: یہودی ہوئے
وَالنَّصَارَىٰ
: اور نصرانی
وَالصَّابِئِیْنَ
: اور صابی
مَنْ
: جو
اٰمَنَ
: ایمان لائے
بِاللّٰہِ
: اللہ پر
وَالْيَوْمِ الْآخِرِ
: اور روز آخرت پر
وَعَمِلَ صَالِحًا
: اور نیک عمل کرے
فَلَهُمْ
: تو ان کے لیے
اَجْرُهُمْ
: ان کا اجر ہے
عِنْدَ رَبِّهِمْ
: ان کے رب کے پاس
وَلَا خَوْفٌ
: اور نہ کوئی خوف ہوگا
عَلَيْهِمْ
: ان پر
وَلَا
: اور نہ
هُمْ
: وہ
يَحْزَنُوْنَ
: غمگین ہوں گے
بیشک جو ایمان لائے، جو یہودی ہوئے اور نصاری اور صائبی، ان میں سے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان لایا اور جس نے عمل صالح کیا تو اس کے لیے اس کے رب کے پاس اجر ہے اور ان کے لیے کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
ھاد، یھود، ھوداً کے معنی رجوع کرنے اور توبہ کرنے کے ہیں۔ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا ان الفاظ میں نقل ہوئی ہے۔ وَاکْتُبْ لَنَا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ اِنَّا ہُدْنَا اِلَیْْکَ- (اعراف: ۱۵۶) اور ہمارے لئے اس دنیا میں اور آخرت میں بھلائی لکھ دے۔ ہم نے تیری طرف رجوع کیا۔ پھر ہَادَ اور تَہَوَّدَ یہودی ہونے کے معنی میں استعمال ہوئے اور یہ استعمال عربی زبان کے عام قاعدے کے مطابق نہیں ہے جس طرح تَنَصَّرَ نصرانی ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لفظ کی اصل حقیقت یہی ہے لیکن بعض مخالفین اسلام نے یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ قرآن نے یہ لفظ غلط استعمال کیا ہے۔ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ یہود کا لفظ ہود کے مادہ سے نہیں ہے بلکہ یہ یہوذا کی طرف نسبت ہے جو حضرت یعقوب علیہ السلام کے چوتھے بیٹے تھے۔ اس اعتراض کے سبب سے اس لفظ کی تحقیق ضروری ہے۔ مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب مفردات القرآن میں اس لفظ کی جو تحقیق بیان کرتے ہیں ہم اس کے ضروری حصہ کا اقتباس یہاں درج کرتے ہیں۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ اس لفظ کے اشتقاق پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: “ہم یہاں اس لفظ کے اشتقاق پر گفتگو کریں گے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ جن لوگوں نے قرآن مجید کے خلاف یہ اعتراض اٹھایا ہے انہوں نے نہ تو قرآن مجید کو سمجھا ہے اور نہ خود اپنے صحیفوں ہی کو سمجھا ہے۔ قرآن مجید نے یہ لفظ جو استعمال کیا ہے تو اپنی طرف سے ایجاد کر کے نہیں کیا ہے بلکہ عربی زبان کے ایک عام استعمال کردہ لفظ کو استعمال کیا ہے۔ اہل عرب ہاد یہود کا فعل یہودی ہونے کے معنی میں استعمال کرتے آئے ہیں اور قرآن مجید نے ھُدۡنَا کا لفظ جو استعمال کیا ہے تو لفظ یہود کا اشتقاق بیان کرنے کے لئے نہیں کیا ہے بلکہ یہ لفظ اپنے اصل معنی یعنی توبہ کرنے اور رجوع کرنے کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ خاص اس لفظ کے استعمال میں بلاغت کا ایک نکتہ ہے۔ وہ یہ کہ یہود کو ایک ایسی حقیقت کی طرف متوجہ کر رہا ہے جس کو وہ بالکل فراموش کر بیٹھے تھے۔ اس کی وضاحت آگے آئے گی۔” “اس اعتراض سے انہوں نے خود اپنے صحیفوں سے جس بےخبری کا ثبوت دیا ہے اس کی حقیقت اس تفصیل سے واضح ہو گی جو ہم آگے پیش کر رہے ہیں۔” “یہوذا حضرت یعقوب علیہ السلام کے ان بارہ بیٹوں میں سے چوتھے بیٹے تھے جن سے بنی اسرائیل کے بارہ خاندانوں کا ظہور ہوا ہے۔ یشوع کے زمانہ میں مفتوحہ علاقہ انہی لوگوں کے درمیان تقسیم ہوا اور اس تقسیم میں ارشلیم سے لے کر اس جنوب کا تمام علاقہ بنی یہوذا کے حصہ میں آیا۔ حضرت داؤد علیہ السلام اسی خاندان سے تھے۔ ان کے زمانہ میں تمام سلطنت بنی اسرائیل ان کے قبضہ میں آئی جس سے اس خاندان کی عظمت وشوکت کو چار چاند لگ گئے۔ ان کے بعد ان کے وارث ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام ہوئے جنہوں نے اپنے دارالسلطنت میں ہیکل کی تعمیر کی۔ اس سے بنی یہوذا کی عظمت میں مزید اضافہ ہوا۔” “حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد ان کے اندر اختلافات پیدا ہوئے اور یہ پوری قوم دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک حصہ یہوذا کے نام سے موسوم ہوا اور دوسرا بنی اسرائیل کے۔ بقیہ خاندانوں کے نام اس کے بعد بالکل غیر معروف ہو کر رہ گئے۔ بعد کی تاریخ میں یہوذا اور اسرائیل دو ہی نام آتے ہیں۔ پھر جب یہ لوگ کلدانیوں کی اسیری میں مبتلا ہوئے تو تمام بنی اسرائیل کے لئے یہود کا لفظ ایک مشترک نام کی حیثیت سے استعمال ہونے لگا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہوذا اور یہود میں کوئی فرق نہیں سمجھتے تھے۔” “لفظ یہوذا کے اشتقاق میں یہود کو بڑا اشتباہ پیش آیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ لفظ یہو اور ذا سے مرکب ہے۔ یہو کے معنی اللہ کے اور ذا کے معنی ہذا کے ہیں۔ چوں کہ اس طرح یہو کے ساتھ ترکیب پائے ہوئے نام ان کے ہاں موجود ہیں اس وجہ سے ان کو یہ غلط فہمی پیش آئی اور یہوذا کی وجہ تسمیہ کے بارے میں کتاب پیدائش میں جو عبارت موجود ہے اس کو یہ لوگ نہ سمجھ سکے۔ سفرتکوین کی عبارت یہ ہے۔ اور وہ (لیہ زوجہ یعقوب علیہ السلام) پھر حاملہ ہوئی اور اس کے بیٹا ہوا۔ تب اس نے کہا کہ میں اب خداوند کی ستائش کروں گی اس لئے اس کا نام یہوذا رکھا۔ (پیدائش باب ۱۸ آیت ۳۵) اس سے یہود نے یہ سمجھا کہ یہ لفظ اس واقعہ اور یہود کے لفظ کی طرف اشارہ کر رہا ہے حالانکہ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی حمد کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ الفاظ اس تاویل کے متحمل ہیں اور مندرجہ ذیل امور اس کی تائید میں ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں کے ناموں کے معانی کی طرف جس طرح ان کی ولادت کے ذکر کے سلسلہ میں اشارہ ہوا ہے اسی طرح اس موقع پر بھی اشارہ ہوا ہے جہاں حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان کے لئے برکت کی دعا فرمائی ہے۔ مثلاً ولادت کے بیان کے سلسلہ میں کتاب پیدائش باب ۳۰ آیات ۱۹-۲۰ میں ہے۔ اور لیاہ پھر حاملہ ہوئی اور یعقوب سے اس کے چھٹا بیٹا ہوا۔ تب لیاہ نے کہا کہ خدا نے مجھے اچھا مہر بخشا۔ اب میرا شوہر میرے ساتھ رہے گا کیونکہ میرے اس سے چھ بیٹے ہو چکے ہیں سو اس نے اس کا نام زبولون رکھا۔ پھر اسی کتاب میں دعائے برکت کے سلسلہ میں یہ الفاظ وارد ہیں۔ زبولون سمندر کے کنارے بسے گا۔ ۴۹/ ۱۳ غور کر کے دیکھو، ان دونوں مواقع پر سکونت کے معنی کی طرف اشارہ موجود ہے۔ اسی طرح یہوذا کے متعلق اس کتاب میں جو دعا مذکور ہے اس کے الفاظ یہ ہیں: اے یہوداہ! تیرے بھائی تیری مدح کریں گے۔ تیرا ہاتھ تیرے دشمنوں کی گردن پر ہوگا۔ تیرے باپ کی اولاد تیرے آگے سرنگوں ہو گی۔ اس سے واضح ہوا کہ یہودا کے تسمیہ میں درحقیقت حمدوطاعت کا مفہوم ملحوظ ہے۔ اور لفظ یہوذا یہو اور ذا سے مرکب نہیں ہے بلکہ یہ ایک ہی لفظ ہے اور اس کا مادہ ہود ہے۔ دوسرا یہ کہ کلدانیوں کی اسیری کے بعد سے ان کے لئے مشترک طور پر جو نام استعمال ہوا ہے وہ یہود اور یہودی کا ہے۔ اس کے ثبوت عزرا، استیر، اشعیا، ارمیا، دانیال اور انجیل سب میں موجود ہیں یہاں تک کہ یہی نام زبان زد عوام وخواص ہو گیا۔ اگر اصل نام یہوذا ہوتا، جیسا کہ ان لوگوں کا دعویٰ ہے تو پھر اس کی طرف نسبت یہوذی، ذال کے ساتھ، ہونی چاہئے تھی نہ کہ دال کے ساتھ۔ تیسرا یہ کہ لفظ یہو کے ساتھ کسی ایسے ہی لفظ کو ملایا جاسکتا ہے جس کا ملایا جانا اس کے ساتھ موزوں ہو۔ لفظ ذا کوئی ایسا موزوں لفظ نہیں ہے جو کسی مخلوق کا نام رکھنے کے لئے اس کے ساتھ ملایا جائے۔ کیوں کہ اس کے ملانے سے جو معنی بنتے ہیں کہ یہ اللہ ہے۔ ظاہر ہے کسی مخلوق کے لئے اس لفظ کا استعمال ایک نہایت ہی مکروہ سی بات ہے۔ اس تفصیل سے یہ حقیقت واضح ہوئی ہے کہ قرآن مجید نے یہاں اپنے عام قاعدے کے مطابق یہود کو ان کی ایک غلطی پر متنبہ کیا اور یہ واضح کیا کہ لفظ یہودا کی طرف سے وہ اپنے کو منسوب کرتے ہیں اس کی اصل مادہ ہود سے ہے اور اس میں ایک لطیف اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ان کے نام کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں۔”۱ نصاریٰ: لفظ نصاریٰ کی تحقیق استاذ امام مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب مفردات القرآن میں مندرجہ ذیل بیان فرمائی ہے: “نصاریٰ نصران کی جمع ہے جس طرح ندامی ندمان کی جمع ہے۔ شروع شروع میں نصاریٰ کا یہی نام تھا اور ان کے متقدمین اس نام کو پسند کرتے تھے لیکن متاخرین نے اپنے متقدمین کے برخلاف اس کو اپنی تحقیر سمجھا۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ نصاریٰ بعد کے دور میں دو فرقوں میں تقسیم ہو گئے۔ ایک فرقہ نے خلیفہ برحق شمعون (پیٹر) کی پیروی کی، اس نے اپنے آپ کو نصاریٰ سے موسوم کیا۔ اس گروہ کے لوگ آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد آپ ﷺ پر ایمان لائے۔ یہی گروہ ہے جس کی قرآن نے مختلف مقامات میں تعریف فرمائی ہے۔ مثلاً وَلَتَجِدَنَّھُمۡ اَقۡرَبَھُمۡ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ قَالُوۡٓا اِنَّا نَصَاریٰ (مائدہ: ۸۲) (اور تم اہل ایمان کی دوستی میں ان لوگوں کو زیادہ قریب پاؤ گے جنہوں نے اپنے آپ کو نصاریٰ کہا) اس آیت میں اس بات کی تصریح ہے کہ قرآن کا ممدوح گروہ وہی ہے جس نے اپنے آپ کو نصاریٰ سے موسوم کیا۔ ان کے دوسرے فرقہ نے متبدع بولوس (پال) کی پیروی کی۔ موجودہ عیسائی اسی فرقہ سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ان لوگوں کے نزدیک نصاریٰ کا لفظ ایک تحقیر کا لفظ ہے۔ ان کے خیال میں یہ ایک گاؤں کی طرف نسبت ہے جو ایک نہایت حقیر سا گاؤں تھا۔ چنانچہ یوحنا باب ۴۵ میں ہے: “فلپس نے نتن ایل سے مل کر ان سے کہا کہ جس کا ذکر موسیٰ نے توریت میں اور نبیوں نے کیا ہے وہ ہم کو مل گیا۔ وہ یوسف کا بیٹا یسوع ناصری ہے۔ نتن ایل نے اس سے کہا، کیا ناصرہ سے کوئی اچھی چیز نکل سکتی ہے۔”یہ بات اس گروہ کے تکبر کی ایک دلیل ہے۔ اگر حضرت عیسٰی علیہ السلام کا مولد ناصرہ ہی ہے تو اس کی طرف منسوب ہونے میں حقارت کا کون سا پہلو ہے۔ جب کہ ان لوگوں کا دعویٰ بھی ہے کہ ناصرہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش ہے اور یہ کہ وہ ناصری کے لقب سے پکارے جائیں گے۔ چنانچہ متی باب ۲-۲۴ میں ہے: “اور ناصرہ ایک شہر میں جا بسا تاکہ جو نبیوں کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہو کہ وہ ناصری کہلائے گا۔”بعض مخالفین قرآن نے اس لفظ کو بھی قرآن پر اعتراض کا بہانہ بنایا ہے۔ ان کا اعتراض یہ ہے کہ چوں کہ قرآن کو اس وجہ تسمیہ کا پتہ نہیں تھا اس وجہ سے اس نے نصاریٰ کو نصرت سے ماخوذ سمجھا ہے اور سورہ صف کی اس آیت میں اسی پہلو سے ان کا ذکر کیا ہے۔ وَاِذۡ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیِّیْنَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ (اور یاد کرو جب کہ عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا کہ خدا کی راہ میں میرا مددگار کون بنتا ہے، حواریوں نے جواب دیا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں) ہمارے نزدیک ان معترضین کا یہ اعتراض آیت کے مفہوم سے بالکل ناواقفیت پر مبنی ہے۔ یہاں قرآن مجید نے نصاریٰ کی وجہ تسمیہ بیان نہیں کی ہے بلکہ ایک امر واقعی بیان فرمایا ہے۔ زیادہ سے زیادہ بات جو اس آیت سے نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ اس میں ایک لطیف تلمیح اس بات کی طرف ہے کہ جو لوگ نصاریٰ کے نام سے موسوم ہیں انہیں حق کا مددگار ہونا چاہئے کیوں کہ اس کا اشارہ خود ان کے نام کے اندر موجود ہے۔ اس قسم کی لطیف تلمیحات انبیاء علیہم السلام کے کلام میں بکثرت موجود ہیں۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے شمعون سے جن کا لقب صفا تھا فرمایا کہ“اور میں تجھ سے کہتا ہوں کہ تو پطرس ہے اور میں اس پتھر پر اپنی کلیسا بناوں گا۔”باب ۱۶ آیت ۱۸”۲ صَابِئِیۡنَ: صابئین کے متعلق اہل تاویل کے متعدد اقوال منقول ہیں۔ مجاہد اور حسن کے نزدیک یہ لوگ کسی خاص دین کے پیرو نہیں تھے بلکہ یہودیت اور محبوسیت کے بین بین تھے۔ ان لوگوں کے نزدیک ان کا ذبیحہ حرام ہے۔ ابن زید کا قول ہے کہ یہ ایک مخصوص دین کے پیرو تھے اور جزیرہ موصل میں آباد تھے، ان کا عقیدہ توحید تھا لیکن نہ تو یہ کسی نبی اور کسی کتاب کے پیرو تھے اور نہ ان کے ہاں شرعی اعمال کا کوئی مخصوص نظام تھا۔ قتادہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ ملائکہ کی پرستش کرتے، قبلہ کی طرف نماز پڑھتے اور زبور کی تلاوت کرتے تھے۔ ابوالعالیہ اور سفیان کے نزدیک یہ لوگ اہل کتاب میں سے ایک فرقہ تھے۔ مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ اقوال بظاہر متضاد نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں ان میں تضاد نہیں ہے۔ اس میں شبہ نہیں ہے کہ اول اول یہ لوگ دین حق پر تھے لیکن بعد میں یہ لوگ دین حق سے منحرف ہو کر ملائکہ اور ستاروں کی پرستش میں مبتلا ہو گئے، یہ بالکل اسی طرح کا معاملہ ہے جس طرح حضرت حضرت اسماعیل کی اولاد سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت پر تھی لیکن بعد میں شرک وبت پرستی میں مبتلا ہو گئی۔ قرآن مجید کی زیر بحث آیت سے مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ کے اس خیال کی تائید ہوتی ہے کیوں کہ قرآن نے اس گروہ کا جس انداز میں ذکر فرمایا ہے اس سے یہ امر تو بالکل واضح ہے کہ یہ لوگ ابتداءً دین حق پر تھے، بعد میں بدعتوں اور گمراہیوں میں مبتلا ہوئے۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا قیاس یہ ہے کہ ان لوگوں کے اندر نماز کی عبادت معلوم ہوتا ہے بہت زیادہ تھی۔ چنانچہ اسی اشتراک سے سبب سے مشرکین آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کو صابئین کہتے تھے۔ ان کی وجہ تسمیہ سے متعلق مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا خیال یہ ہے کہ چوں کہ صباء کے معنی طلوع ہونے کے آتے ہیں اس وجہ سے ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ اپنی ستارہ شناسی اور معرفت نجوم میں مہارت کے سبب سے اس نام سے موسوم ہوئے ہوں۔ چوں کہ اس مذہب کے پیروؤں کا وجود اب کہیں باقی نہیں رہا ہے اور نہ ان کی کوئی مستند تاریخ ہی موجود ہے اس وجہ سے ان کے متعلق اعتماد سے کوئی بات کہنا مشکل ہے لیکن قرآن مجید کے زمانہ نزول میں معلوم ہوتا ہے کہ ایک فرقہ کی حیثیت سے ان لوگوں کا وجود بالکل معروف تھا۔ _______ ۱ اس تمام تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو مولانا فراہیؒ کی مفردات القرآن میں تحقیق لفظ ’ھَادُوۡا‘۔ ۲ اس تفصیل کے ملاحظہ ہو مولانا فراہیؒ کی مفردات القرآن میں لفظ نصاریٰ کی تحقیق۔
Top