Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 65
وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِئِیْنَۚ
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ : اور البتہ تم نے جان لیا الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا : جنہوں نے زیادتی کی مِنْكُمْ : تم سے فِي السَّبْتِ : ہفتہ کے دن میں فَقُلْنَا : تب ہم نے کہا لَهُمْ : ان سے كُوْنُوْا : تم ہوجاؤ قِرَدَةً خَاسِئِیْنَ : ذلیل بندر
اور ان لوگوں کا علم تو تمہیں ہے ہی جنہوں نے سبت کے معاملے میں حدود الٰہی کی بےحرمتی کی تو ہم نے ان کو دھتکارا کہ بن جاؤ، ذلیل بندر بن جاؤ،
یہ اس نقض عہد کی ایک مثال ہے جس کا اجمالی ذکر اوپر والی آیت میں ہوا ہے۔ بنی اسرائیل کے لئے سبت (ہفتہ) کا دن عبادت کے لئے مخصوص کیا گیا تھا۔ اس دن ان کو کام کاج اور سیروشکار کی ممانعت تھی۔ لیکن انہوں نے اپنے آپ کو شریعت الہٰی کی ان پابندیوں سے آزاد کرنے کے لئے بہت سے شرعی حیلے ایجاد کر لئے۔ یہاں تک کہ سیروشکار وغیرہ کی بھی بہت سی راہیں کھول لیں۔ اس آیت میں ان کی اسی قسم کی حرکتوں کی طرف اشارہ ہے اور چونکہ یہ باتیں ان کے درمیان شہرت رکھتی تھیں اس وجہ سے قرآن نے اس کی طرف ایک معلوم ومعروف حقیقت کی طرح اشارہ کر دیا ہے۔ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوۡا قِرَدَةً خَاسِئِيۡنَ، لعنت اور پھٹکار کا جملہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اس جرم کی پاداش میں ان لوگوں پر لعنت فرمائی ہے جن لوگوں نے اپنی خواہشات نفس کی پیروی میں سبت کی حرمت برباد کی۔ اہل تاویل کے درمیان اس امر میں اختلاف ہوا ہے کہ اس لعنت کے نتیجہ میں ان کا ظاہر بھی بندروں کے مشابہ ہو گیا تھا یا یہ مسخ صرف عقلی اور روحانی مسخ تھا۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ اختلاف کچھ زیادہ اہمیت رکھنے والا اختلاف نہیں ہے۔ انسان اور بندر کے درمیان شکل وصورت کا فرق بہت زیادہ نہیں ہے۔ اصلی فرق جو ہے وہ عقل اور ارادہ کا ہے۔ انسان کی اصلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کی کوئی خواہش پوری کرتے وقت پہلے سے یہ د یکھتا ہے کہ اس خواہش کو پورا کرنا جائز بھی ہے یا نہیں اور اگر جائز ہے تو اس کے لئے کیا شرعی اور اخلاقی حدودوقیود ہیں؟ برعکس اس کے بندر کی کسی خواہش اور اس کے فعل کے درمیان اخلاقی حدودوقیود کی کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی جس چیز کو اس کا نفس چاہ بیٹھتا ہے اس کو وہ فوراً کر گزرتا ہے۔ اگر یہی حالت اپنی خواہشات نفس کی پیروی میں کسی انسان کی یا کسی انسانی گروہ کی ہو جائے تو اس کے درمیان اور بندر کے درمیان کوئی معنوی فرق نہیں رہ جاتا۔ صرف ایک ظاہری فرق تھوڑا سا رہ جاتا ہے جو صرف اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک عقلی اور اخلاقی زوال اپنی آخری حد کو نہیں پہنچ جاتا۔ جب یہ زوال آخری حد کو پہنچ جاتا ہے تو یہ تھوڑا سا ظاہری فرق بھی بالآخر مٹ ہی کے رہتا ہے۔
Top